آیئے آج آپ کو بادشاہی مسجد لاہور کی تاریخ بتاتے ہیں ویسے تو اس بلند و بالا عمارت اور شایانِ شان مسجد کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکاہے مگر آج کی تحریر نہ صرف منفرد بلکہ تاریخ کے اوراق سے حاصل شدہ ایک شاندار تحقیق بھی ہے جسے پڑھ کر امید کیا جا سکتا ہے کہ یہ مضمون قلمکاری کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ بہرحال یہ تھی ” اپنے منہ میاں مٹھو ” بننے والی بات مگر حقیقت اس سے کچھ مختلف بھی نہیں ہے۔جب آپ اسے پڑھیںگے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ واقعی حالات و واقعات اور سن عیسویں کا ذکر بہت باریک بینی اور تحقیق کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔
مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی بصیرت و آگہی اور مسلمانوں سے محبت کے پیشِ نظر بادشاہی مسجد کی تعمیر لاہور میں ہوئی ۔بادشاہی مسجد لاہور، پاکستان اور جنوبی ایشیا کی دوسری بڑی مسجد ہے۔اسے دنیا کی پانچویں بڑی مسجد میں شمار کیا جاتا ہے، مسجد حرم،مسجد نبوی،مسجد حسن دوئم کاسا بلانکا،فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد اسی کا نمبر ہے ۔فیصل مسجد بننے سے قبل اس کا شمار پاکستان کی سب سے بڑی مسجد میں کیا جاتا تھا۔اس میں دس ہزار نمازی اندر اور دس ہزار صحن میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔یہ 1673 ء سے 1986 ء تک دنیا کی سب سے بڑی مسجد رہی،اس کا صحن دنیا کی مسجدوں میں سب سے بڑا صحن ہے،اس کے مینار تاج محل کے میناروں سے13 فٹ9 انچ زیادہ اونچے ہیں۔مسجد کا صحن 278,784 مربع فٹ وسیع ہے جس میں تاج محل کا پورا پلیٹ فارم سما سکتا ہے۔
بادشاہی مسجد لاہورچھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیرنے بنوائی تھی،اس کی تعمیرمئی1671ء میں شروع ہوکراپریل 1673ء میں مکمل ہوئی،تعمیرِمسجد کی دیکھ بھال اورنگزیب عالمگیر کے رشتہ کے بھائی مظفر حسین (فدائی خان کوکا)نے کی،مظفر حسین1671ء تا 1675ء لاہور کاگورنر رہا،مسجد کو اورنگزیب عالمگیرکے حکم پرقلعہء لاہورکے بالکل سامنے بنایاگیاتاکہ بادشاہ کو آنے جانے میں آسانی رہے،اس بات کے لئے قلعہ میں ایک دروازہ مزیدبنایاگیا جو عالمگیری دروازے کے نام سے منسوب ہے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں اس مسجد کا بڑا غلط استعمال ہوا،پوری مسجد کو گھوڑوں کا اصطبل اور اسلحہ خانہ بنا دیاگیا،چاروں میناروں کے گنبد توپوں کیلئے استعمال کئے گئے جس سے ان کو سخت نقصان پہنچا،انگریزوں نے جب سکھوں کو شکست دی تو مسجدکے استعمال کو بھی بحال کیا ،اصطبل اور اسلحہ خانہ قلعہ میں منتقل کیا،مگر مسلمانوں سے ان کوخدشات لاحق تھے اس لئے مسجد کی ایک بڑی دیوار منہدم کردی تاکہ مسلمان مسجد کو قلعہ کے طور پراستعمال نہ کرسکیں۔
1852عیسویں کے بعد مسجد کی مرمّت کا کام شروع ہوا،اور مسجد میں نماز کے اجتماعات جاری ہوئے۔1939ء سے1960ء تک اس مسجد میں مرمت ہوتی رہی اور تقریباََپچاس لاکھ روپیہ خرچ ہوا،یہاں تک کہ مسجد اپنی اصلی حالت میں آگئی۔مرمّت کا کام زین یار جنگ بہادر کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا۔22 فروری1974ء میں دوسری اسلامی کانفرنس کے موقع پر 39 اسلامی ممالک کے سر براہوں نے یہاں پر نمازِ جمعہ ادا کی ،مولانا عبدالعزیز آزاد خطیبِ مسجد نے امامت کی،اس مسجد کے صدر دروازے کے قریب ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی ہے جس میں حضوراکرمۖ،حضرت علی رضی اللہ عنہ ،اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے تبرکات رکھے ہوئے ہیں۔سن2000 ء میں کچھ مرمت اور تزئین کا کام دوبارہ شروع ہوا،سنگِ مر مر کے ٹائلز لگائے گئے،اور2008 ء میں صحن میں سرخ پتھر کے ٹائل لگائے گئے۔یہ پتھرپرانے پتھروں کے مماثل راجستھان( بھارت) سے منگوائے گئے تھے۔
بادشاہی مسجد لاہور کا ڈیزائن جامع مسجد دہلی کی طرز پرہے جس میں اسلامی،ایرانی،مشرقِ وسطیٰ اور ہندوستانی عمارت کاری کے ملے جلے اثرات پائے جاتے ہیں۔صدر دروازے کی سیڑھیاں سنگِ علوی کی ہیںجو سنگِ مر مر کی ایک قسم ہے،اصل مسجد کی چھت سات مختلف حصوں میں تقسیم کی ہوئی ہے جو محرابوں پر مشتمل سات گنبدوں سے پاٹی گئی ہے،بیچ کے تین گنبد دوہری اونچائی کے ہیں ،جبکہ بقیہ چار گنبد چپٹی شکل کے ہیں۔بیچ کے تینوں گنبد سفید سنگِ مر مر کے ہیں۔مسجد کا صدر ہال جہاں امام کھڑا ہوتا ہے،منبت کاریStucco کی بہترین مثال ہے،دیواروں اور چھت کی روغنی تزئین Fresco اور سنگِ مر مر کا inlaid کام بہت عمدہ کیا ہوا ہے۔بیرونی دیواروں پر سنگِ سرخ پر سنگِ مر مر کا چھلائی اور کارنسوں کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے،سنگِ مر مر کی جڑائی کا کام بھی بہت صفائی سے کیا گیا ہے،پھول پتوں میں کنول کے پھول سفید سنگِ مر مر سے سرخ پتھر میں پیوست کئے گئے ہیں۔
پھولوں کے ڈیزائن ہندی یونانی،وسطی ایشیاء اور ہندی عمارت کاری سے مشابہت رکھتے ہیں ۔مغل نقش و نگار اور شایانِ شان عمارتکاری میں توازن Symmetry کا بڑا خیال رکھا جا تا تھا،اسی لحاظ سے شمال اور جنوب میں دروازے نہیں بنائے گئے کیونکہ شمال میں راوی بہتا تھا،دروازہ نہیں بن سکتا تھااس لئے جنوب میں بھی دروازہ نہیں بنایا۔دیواریں سرخ اینٹوں سے چونے کے گارے کے ساتھ بنائی گئی ہیں،اصل فرش سرخ اینٹوں سے بنایاگیا تھا ،بعد میں مرمت کے وقت سنگِ سرخ استعمال کیا گیا،صدر ہال میں جو سنگِ مر مر استعمال کیا گیا ہے اسے ”سنگِ ابری” بھی کہتے ہیں۔قرآنی آیات صرف دو جگہ لکھی گئی ہیں،ایک صدردروازہ پر اور دوسری جگہ محراب و منبر کے اوپر کلمہ لکھاہوا ہے۔ مقبرہ علّامہ اقبال بادشاہی مسجد لاہور کے صدر دروازہ کے پاس حضوری باغ میں سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ بنا ہوا ہے،یہ مقبرہ مستطیل شکل میں سنگِ سرخ سے بنایا گیا ہے،مشرق اور جنوب میں ایک ایک دروازہ ہے اور شمالی دیوار میں سنگِ مر مر کی جالی لگی ہوئی ہے۔اندرونِ مزار علامہ اقبال کی کتاب ”زبورِ عجم ” سے چھ اشعارمنتخب کرکے خطاطی کی گئی ہے،مزار کا سنگِ مر مر افغانی لوگوں کی طرف سے تحفہ میں دیا گیا تھا۔لوحِ مزار پر قرآنی آیات کندہ کی گئی ہیں،اس مقبرہ پر اس زمانے کے ایک لاکھ روپئے خرچ ہوئے تھے،اور عمارت 13 سال میں مکمل ہوئی تھی،تعمیر میں تاخیر اس لئے ہوئی کہ تقسیمِ ہندوپاکستان کے بعدجے پور سے پتھر آنا بند ہو گیا تھا،سنگِ سرخ جے پور سے اور سنگِ مر مر مکرانہ راجپوتانہ سے آتا تھا۔مزار کا پتھر افغانی لوگوں نے فراہم کیا تھا ،یہ وہی پتھر ہے جو بابر بادشاہ کے مزار میں استعمال ہوا ہے،اسے لیپز لزولی کہا جاتا ہے۔مقبرہ کی تعمیر کے لئے علامہ کی وفات(21 اپریل1938 ئ) کے بعد چودھری محمد حسین کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس کے بعدبہت سے ڈیزائن دیکھے گئے ،حیدرآباد دکن کے چیف انجیئنر جناب نواب زین یار جنگ بہادر کا ڈیزائن پسند کیا گیا جو افغانی مورش بلڈنگوں کا نمونہ تھا،تاخیر کا باعث فنڈز کا نہ ہونا بھی تھا کیونکہ کمیٹی حکومتِ وقت سے کوئی امدادلینا نہیں چاہتی تھی لہٰذہ اقبال کے چاہنے والوں نے ہی فنڈز فراہم کئے۔مزار پر پاکستانی رینجرز کے دستے تعینات رہتے ہیں۔
Badshahi Mosque Lahore
بادشاہی مسجد آج بھی مغلوں کی عظمت کی گواہی اور جاہ و جلال کی تصویر ہے ۔ مغل فنِ تعمیر کا کمال یہ ہے کہ اس کے چاروں گنبدوں پر چڑھ کر چند کلو میٹر دور مقبرہ جہانگیر کے میناروں کو دیکھیں تو صرف تین ہی مینار نظر آئیںگے چوتھا چُھپ جاتا ہے ۔ اس طرح جہانگیر کے مقبرے سے بادشاہی مسجد کے میناروں کو دیکھیں تو وہاں سے بھی صرف تین ہی مینار نظر آتے ہیں ، چوتھا نظر وں سے اوجھل ہی رہتا ہے۔