علامہ مشرقی ایک نابغہ شخصیت تھے۔ فرماتے ہیں ” ہم مسلمان مدت تک یہ سمجھتے رہے کہ مولوی ہمیں ٹھیک بتاتا ہے، فرق ہے تو ہم میں ہے ہمارے عمل کرنے میں کسر رہ گئی ہے” اس غفلت میں کئی قرن گزر گئے لیکن حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ مولوی اور مرشد ہمارا اندھا اعتماد تھا جس نے ہمیں تباہ و برباد کیا۔ ہم کہیں کے بھی نہ رہے۔
بات ایسی نہیں ہے معاملہ مفاد کا ہے، مفادات کا ٹکراؤ جہاں کہیں ہو گا، وہاں ایسا ہی ہو گا جو ہمارے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے۔ یہ انسانی کمزوریاں ہیں جو سب انسانوں میں یکساں ہوتی ہیں۔ مولوی کسی دوسرے سیارے کی مخلوق نہیں ہمارا ہی بھائی ہے جو کمزوریاں ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہیں وہ اسکے ساتھ بھی لگی ہوئی ہیں بلکہ زیادہ لگی ہیں۔ جو خوبیاں ہم میں ہیں وہ اس میں بھی پائی جاتی ہیں۔ بہتر ہو گا اگر یہی بات میں تمثیل میں پیش کروں۔
donkey in jungle
کہتے ہیں کہ ایک تاریک رات میں ایک گھنے جنگل میں برگد کے درخت کے نیچے ایک گدھا ہچکیاں لے کر رو رہا تھا، ساتھ ساتھ کہہ رہا تھا رات ہو گئی، اب میں کسطرح گھر پہنچوں گا؟ ہائے میں نے کیوں دھیان نہیں دیا اب کیا ہو گا؟
الو جسے اندھیرے میں اللہ نے دیکھنے کی طاقت سے نوازا ہے البتہ روشنی میں بینائی کام نہیں کرتی، وہ اوپر درخت پر بیٹھا تھا اس سے گدھے کا رونا دیکھا نہ گیا۔
وہ اترا اور گدھے سے کہا گدھے بھائی روؤ نہیں میں دل کا بڑا کمزور ہوں اور تمہاری آواز میں بڑا درد ہے۔ میں رات کو بھی دیکھنے کی طاقت رکھتا ہوں تم مجھے اپنا پتہ بتاؤ میں تمہیں تمہارے ٹھکانے پر پہنچا دونگا۔ گدھا بڑا خوش ہوا۔
کہا” الو بھائی! بڑی مہربانی ہو گی، میں نیلم پہاڑ کے قریب وادی انجیر میں رہتا ہوں وہیں میرے بھائی بند ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الو نے کہا میں تمہاری پیٹھ پر بیٹھ کر تمہاری رہنمائی کرونگا جسطرح پاکستانی لیڈر عوام کی پیٹھ پر بیٹھ کر رہنمائی کرتے ہیں۔
دراصل رہنمائی کیلئے اس سے بہتر مقام اور کوئی نہیں ہے، بس جس طرف میں کہوں مڑ جاؤ، مڑ جایا کرو بہت جلد میں تمہیں تمہاری منزل تک پہنچا دونگا۔ گدھے نے کہا ٹھیک ہے مجھے پاکستانی عوام سمجھ کر میری پیٹھ پر بیٹھ جاؤ میں ادھر ہی مڑ جاؤنگا جدھر آپ کہیں گے۔
وادی انجیر کی سفر شروع ہو گیا مگر راستہ طویل تھا بہرحال الو بتاتا رہا کہ دائیں کو چلو اب ذرا بائیں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے چلتے رہو مگر یہاں ایک پرابلم درپیش ہوئی۔
الو نے دیکھا کہ صبح صادق نمودار ہوئی، الو نے محسوس کیا کہ اگر میں اسی طرح چلتا رہا تو کچھ دیر میں چمکدار سورج نمودار ہو گا اور میں کہیں کا نہ رہوں گا پھر میری رہنمائی کون کریگا؟ کہیں یہ ثواب میرے لیے عذاب نہ بن جائے؟
بہتر ہو گا کہ اس ثواب سے جان چھڑائی جائے، گدھے کو عدم آباد کی سیر کرائی جائے یعنی جان چھڑا لی جائے، ابھی وقت ہے کہ میں اڑتے ہوئے اپنے ٹھکانے ( برگد کے درخت ) واپس پہنچ جاؤں۔
owl and donkey
الو نے دیکھا کہ دائیں طرف ایک گہرا غار تھا۔ اس نے گدھے سے کہا کہ ” گدھے بھائی! ذرا ایک قدم دائیں کو لے لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اسی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاباش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب گدھا ہوا میں معلق ہوا ٹانگیں ہلاتا زمین کیطرف جانے لگا تو رہنما یعنی الو اسکی پیٹھ سے اڑتا ہوا اپنے مسکن کیطرف پرواز کرنے لگا۔ یعنی الو نے گدھے کیساتھ وہی کام کیا جو ہمارے رہنما کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نیک دل الو نے گدھے کی رہنمائی غار کی طرف کیوں کی اسے منزل مقصود تک کیوں نہیں پہنچایا؟ جواب یہ ہے کہ اپنے مفادات کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔
مولوی بھی اسوقت تک آپکے کام آتا ہے جبتک اسکے مفادات کو خطرہ نہ ہو۔ تو جنگ ہے مفادات کی اصولوں کی نہیں۔