ویتنام کی جنگِ آزادی کا بڑا چرچا تھا۔امریکہ اور ویتنام کے درمیان جنگ اپنے پورے زوروں پر تھی اور ویتنام کے ہوچی منہ نے جس طرح ویتنامی عوام کی قیادت کا فریضہ سر انجام دیا وہ اب بھی حریت پسندوں کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ایک طرف امریکہ اپنی پوری قوت سے ویتنام پر فوجی ی یلغار کئے ہو ئے تھا تو دوسری جانب نہتے ویتنامی ہوچی منہ کی قیادت میں امریکہ کی استعما ر یت کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے۔کئی سال تک جاری رہنے والی اس جنگ میں آخر کار امریکہ کو نامرادو ناکام ہو کر ویتنام سے اپنی فوجیں واپس بلانی پڑیں اور یوں ویتنام نے امریکہ کے استبدادی پنجوں سے آزادی حاصل کر کے آزاد برادری میں اپنا لوہا منوا یا۔ اس جنگ میں امریکہ کو بڑا جانی و مالی نقصان اٹھا نا پر۔ عوام میں اس جنگ کے خلاف ردِ عمل بھی بڑا شدید تھا اور امریکی عوام اصولی طور پر ویتنام کی جنگ کے سخت مخالف تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ امریکہ کو اس بات کا کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے ملکوں پر چڑھائی کر کے انھیں یرغمال بنا لے۔اس جنگ کے خلاف امریکہ میں بڑے بڑے جلوس بھی نکلتے تھے جو ویتنام سے امریکی فو جوں کا انخلا چا ہتے تھے ۔ ایک طرف تو امریکہ کا جانی نقصان بہت زیادہ ہو رہا تھا اور پھر دوسرے عوام بھی اس خون ریزی کا خاتمہ چاہتے تھے جسے امریکہ نے برپا کر رکھا تھا۔ امریکی عوام دنیا میں امن اور بھائی چارے کی فضا دیکھنا چاہتے تھے جسے امریکی حکومت نے اس جنگ سے بری طرح متاثر کر رکھا تھا۔ جی ہاں میں اسی جنگ کی بات کر رہا ہوں جس میں شرکت سے انکار کی وجہ سے عظیم باکسر محمد علی کو اپنے عالمی اعزاز سے محر وم بھی ہونا پڑا تھا اور جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی تھی۔ محمد علی کا موقف بھی امریکی عوام کے موقف کی ہی صدائے باز گشت تھا ۔ محمد علی کے انکار نے امریکہ کو اخلاقی سطح پر بہت زیادہ نقصان پہنچایا کیونکہ محمد علی اس وقت اپنی مقبولیت کی انتہائی بلندیوں پر تھے اور لوگ محمد علی کے اندازِ فکر سے کافی متا ثر تھے۔ وہ ایک ایسے ہیرو تھے جس کے مداح پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے جنھون نے محمد علی کے خلاف امریکی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کے خوب لتے لئے تھے۔ محمد علی کے ویتنام کی جنگ میں شرکت سے انکار نے امریکہ کے اندر ویتنام کے حق میں رائے عامہ کو کافی حد تک متاثر کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور اگر میں یہ کہوں کہ یہ عوامی دبائو کا اثر تھا جس کی وجہ سے امریکہ کو ویتنام سے اپنی فوجوں کے انخلاء کا فیصلہ کرنا پڑا تو بے جا نہ ہو گا۔ ویتنام کی جنگِ آزادی میں امریکہ کے مدِ مقابل تو بظاہر ویتنامی تھے لیکن ویتنام کو روس اور چین کی غیر مشروط حمائت بھی حاصل تھی جسکی وجہ سے امریکیوں کو اپنے عزائم کی تکمیل میں سخت دشواریوں کا سا منا کرنا پڑ رہا تھا۔یہ دور حقیقت وہ دور ہے جس میں روس ا پنی قوت و حشمت اور عروج کی انتہائی بلندیوں پر تھا اور سار ی دنیا روس کی طاقت سے مرعوب بھی تھی اور خوف زدہ بھی تھی۔سوشلسٹ انقلاب نے اسے پوری دنیا میں ایک انتہائی بلند مقام عطا کر رکھا تھا۔ اسی دور میں روسی راہنما خروشیف نے اقوامِ متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران اپنا جوتا میز پر رکھ کر کہا تھا کہ ہم ساری دنیا کو اسی جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور وا قعی دنیا ان کے جوتے کی نوک پر ہو تی تھی۔ہر کمالِ را زوالِ کے مصداق روس کو بھی ایک دن اس بلندی سے گرنا تھا اور اس مسند پر کسی دوسر ی قوم کو بیٹھنا تھا کیونکہ تاریخ کا یہی سبق ہے لیکن روسی اس سبق کو فرامو ش کئے ہو ئے تھے۔ اقتدار کی بے پناہ طاقت میں شائد آنکھوں پر کالی پٹی بندھ جاتی ہے اور انسان حقائق کو دیکھنے سے معذور ہو جاتا ہے۔ یونان،ایران، سلطنتِ روما، امتِ مسلمہ اور پھر برطانیہ کا عرو ج و زوال تاریخ کے صفحات میں محفوظ کر دیا گیا ہے تا کہ آنے والے اس سے عبرت حاصل کریں لیکن ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا بلکہ ہر قوم تاریخ بنانے کی کوشش میں خود د تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ امریکہ کو ویتنام کی اس جنگ میں بڑی رسوائی کے ساتھ وہاں سے نکلنا پڑا اور ذلت آمیز شکست کاداغ اپنی پیشانی پر سجا نا پڑا۔ امریکہ کو ویتنام میں ہزیمت سے دوچار کرنے کے بعد روس فتح کے نشے میں چور اپنی فتو حا ت کے سلسلے کو دراز سے دراز کر نا چاہتا تھا اور اپنے انہی عزائم کی تکمیل کی خاطر اس نے پہلے ١٩٧١ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کی بھر پور مدد کی اور پاکستان کی شکست و ریخت میں بنیا دی کردار ادا کیا اور پھر بھارت سے گٹھ جوڑ کے نتیجے میںروس نے ١٩٧٩ میں افغا نستان پر چڑھائی کر دی ۔ اگر چہ روس کے عزائم ایشیا کی تسخیر تھے لیکن امریکہ نے اسے جال میں پھانس لیا بالکل ویسے ہی جیسے روس نے ویتنام میں امریکہ کو پھانس لیا تھا۔ روس ا فغان جنگ میں ایسا الجھایا کہ اس کی اپنی سالمیت خطرے میں پڑ گئی۔ یورپ ، امریکہ اور اسلامی دنیا کے نئے اتحاد نے روس کی تو سیع پسندی کے سامنے ایسی دیوار کھڑی کر دی کہ اسے افغانستا ن سے بڑی ذلت و رسوائی کے سا تھ پسپا ہو نا پڑا۔اس کی مالی حالت اتنی خستہ ہو گئی کہ اس کی بہت سی ریاستوں نے روسی قبضے کے خلاف اعلانِ آزادی کر دیا اور یوں اقوامِ متحدہ میںجوتا دکھانے و الے روس کو امریکہ نے دل کھول کر جوتے مارے اور اس کی ریاست کو کئی ٹکروں میں تقسیم کر کے اس کی طاقت کا سارا نشہ ہوا کر دیا۔افغا نیوں کی ثابت قدمی، پاکستان کی بے پناہ قربانیوں اور امریکی حکمتِ عملی نے روس کی پسپائی میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ روس کی شکست و ریخت اور پسپائی کا لازمی نتیجہ عالمی مسند پر کسی نئے فاتح کا بیٹھنا تھا اور اپنی جدید ٹیکنالوجی، بہتر نظامِ حکومت اور مضبوط معیشت کی بناء پر اس مسند کا واحد حقدار امریکہ تھا۔ اپنے اس دعوی کو ثابت کرنے کیلئے میرا اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ چونکہ امریکہ اس جنگ کا حقیقی فاتح تھا لہذا اس کی سپر میسی کا قائم ہونا فطری ردِ عمل تھا۔ایک فاتح کی حیثیت سے امریکہ اس وقت عالمی چودھراہٹ کی مسند پر برا جمان ہے اورکسی میں بھی اتنی ہمت نہیں اس کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات کر سکے ۔ ہم خود کو تسلیاں دینے کے لئے جتنے افسانے چاہیں تراش سکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ روس کی شکست و ریخت کے بعد امریکہ ایک ایسی سپر پاور کے روپ میں سامنے آیا جسے تاریخ نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا تھا۔ موجودہ دور مکمل طور پر امریکہ کا دور ہے اور اس کی حاکمیت کا سکہ ساری دنیا پر قائم ہے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اگست ١٩٩٠ میں جب عراق نے کوئت پر ناجائز قبضہ کر لیا تو امریکہ نے عراق کو مجبور کیا کہ وہ کوئت پر اپنا ناجائز قبضہ ختم کرے اور کوئت سے اپنی فوجیں نکال کر کوئت کو اس کے شہریوں کے حوالے کر دے۔ عراقی صدر صدام حسین نے اپنی طاقت کے نشے میں امریکی دھمکی پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تو پوری اسلامی دنیا میں اس کی جراتوں کے گیت گائے گئے اسے صلاح الدین ا یو بی سے تشبیہ دی گئی اور اسے عالمِ اسلام کا عظیم سپوت قرار دیا گیا۔صدام حسین اسلامی دنیا کا نیا ہیرو بن کر طلوع ہوا جس سے بے شمار توقعات وابستہ کر لیں گئیں لیکن ساری توقعات نقش بر آب ثابت ہوئیں ۔ مذ ہبی جماعتوں کی حالت تو دیدنی تھی انھیں نے تو وہ دھما چو کڑی مچائی کہ الامان۔ صدام حسین کی حمائت میں بڑے لمبے لمبے جلوس نکالے گئے اور جو کوئی بھی صدام حسین کے خلاف لب کشائی کی کوشش کرتا اسکی خوب درگت بنائی جاتی علمائے اکرام کی اکثریت صدام حسین کی للکار کو اسلام کی نشاةِ ثانیہ سے تشبیہ دے رہی تھی ایسے لگ رہا تھا کہ امریکہ کی حاکمیت کے دن پورے ہو گئے ہیں اور اسلام کا عروج واپس آنے کو انگڑائیاں لے رہا ہے۔ مذہبی شدت پسندوں کو یقین تھا کہ عراق اپنی قوتِ ایمانی سے امریکہ کو کچا چبا جائے گا اور اسلام کا پرچم ایک دفعہ پھر پوری دنیا پر سایہ فگن ہو گا ۔ صاحبِ عقل و شعور لوگ اس وقت بھی مذہبی طبقوں کی اس قسم کی سطحی سوچ کو خود کشی سے تعبیر کر رہے تھے لیکن مذہبی شدت پسندوں نے کب کسی کی سنی ہے جو وہ ان آواز و ں پر کان دھرتے اور نتیجہ وہی نکلا کہ امریکہ نے عراق پر حملہ کر د یا اور کوئت کو عراقی جارحیت سے آزاد کروا کے کو ئتیوں کو واپس لوٹا دیا ۔ چند ہفتوں میں یہ سار معاملہ نمٹ گیا۔عراقی فوج جسکی جراتوں اور بسالتوں کے گیت گاتے گاتے پاکستان کی علما ء برادری نثار ہو ہی تھی اس نے امر یکیوں کے آگے جتنے ذلت امیز انداز میں ہتھیار پھینکے وہ ایک علیحدہ داستان ہے اور اسلام کی پیشانی پر ایک ایسا سیاہ داغ جسے دھونا ممکن نہیں ہے۔ عراق کی پسپائی کے بعد سارے مینڈک اپنے اپنے نا لوں میں منہ چھپا کر بیٹھ گئے لیکن غلط نعروں اور توقعا ت سے جو نقصان عراق اور امتِ مسلمہ کا ہوناتھا وہ تو ہو گیا لیکن اس نقصان کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟ میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ بھڑکیں اور نعرے مسائل کا حل نہیں ہوتے اور نہ ہی قومیں نعروںاور بھڑکوں کی مدد سے اپنی بقا کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ قوموں کی حیات ان کے نظا مِ حکومت ، ان کے عدل و انصاف ،ان کی جرا توں، ان کے ایمان،جہدِ مسلسل، حکمت ، عقل و دانش اور ان کی جنگی تیاریوں میں مضمر ہوتی ہے اور یہ سارے کے سارے خصائص فی ا لحال امتِ مسلمہ میں ناپید ہیں تبھی تو امامتِ د نیا کی سرفرازی سے وہ کوسوں دو ر ہے اور اس مسند پر وہ قوم فائز ہئے جسے ہم اپنی زبان میں کافرحکومت کے نام سے تشبیہ دیتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک کافر حکومت اسلامی دنیا پر غلبہ حاصل کر کے ساری امتِ مسلمہ کو اپنے زیرِ نگین کر لے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ اسلام کے غلبے کی بشارت تو خود ربِ ذولجلال نے اپنی آخری کتاب میں بڑے واشگاف الفاظ میں بیان کر دی ہے تو پھر مقامِ فکر ہے کہ ساری اسلامی دنیا پر امریکی عمل داری اور تسلط کیوں ہے؟ اس کا سید ھا سادہ جواب تو یہی ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات اور مستقل اقدار کے فلسفے سے بہت دور نکل گئے ہیں اور صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں وگرنہ اگر ہم سچے مسلمان ہو تے تو پھر کسی بھی ملک میں اتنی طا قت نہیں تھی کہ وہ ہمیں زیرِ پا ر کھ سکتا ۔ اقبال نے اس کیفیت کو اپنی شعرہ آفاق نظم جوابِ شکوہ میں جس خوبصورتی سے بیان کیا ہے جی نہیں چاہتا کہ اس سے آپ کو محروم کروں۔ سنئے اور سچائی تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلمان نابود۔۔ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجودوضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود۔۔یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ا فغان بھی ہو۔۔ تم سبھی کچھ ہو بتائو کہ مسلمان بھی ہو۔ تحریر : طارق حسین بٹ