موت کو اتفاقیہ یا بدقسمتی سمجھنا

موت اتفاق سے واقع نہیں ہوتی۔جیسا کہ ہر دوسرے واقع کے ساتھ ہے موت بھی اللہ کے حکم سے آتی ہے۔جیسا کہ پیدائیش کی تاریخ ایک آدمی کے لئیے پہلے سے مقرر ہے تو موت کی تاریخ بھی مقرر ہے۔ آدمی اس آخری لمحے کی طرف تیزی سے بھاگ رہا ہے، تیزی سے ہر گھنٹہ، ہر منٹ جو اسے دیا گیا ہے پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ ہر شخص کی موت، موت کی جگہ اور وقت اور کس طرح وہ مرتا ہے پہلے سے مقرر ہے۔

Paradise

Paradise

البتہ اسکے باوجود زیادہ تر لوگ موت کو مسلسل پیش آنے والے منطقی واقعات کا آخری جز سمجھتے ہیں۔جبکہ اسکی اصل وجہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ہر روز موت کی کہانیاں اخبارات میں شایع ہوتی ہیں۔ان خبروں کو پڑھنے کے بعد شائد آپ اسطرح کے جاہلانہ تبصرے سنتے ہیں” وہ بچ سکتا تھا اگر پہلے سے ضروری اقدامات کر لیے جاتے”یا ” اگر ایسا ہو جاتا تو شائد وہ نا مرتا”۔ جو وقت اسکے مقدر میں لکھ دیا گیا اس سے ایک منٹ بھی کم یا زیادہ ایک انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔البتہ جو لوگ ایمان کے شعور سے دور ہیں وہ موت کو ایک اتفاقیہ ہونے والے واقعات کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ قرآن میں اللہ پاک اس غلط منطق کے خلاف مومنوں کو تنبیہ کرتے ہیں جو کہ غیر مومن کے لیے ایک انوکھی چیز ہے۔

 

“اے ایمان والو تم انکی طرح مت ہو جانا جو کہ کافر ہیں اور کہتے ہیں اپنے بھائیوں کی نسبت جبکہ وہ کسی سر زمین میں سفر کرتے ہیں یا وہ لوگ کہیں غازی بنتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور مارے جاتے تا کہ اللہ تعالی اس بات کوان کے لیے موجب حسرت کردے اور جِلاتا مارتا تو اللہ ہی ہےاور اللہ تعالی جو کچھ تم کر رہے ہو سب دیکھ رہے ہیں- سورۃ آل عمران ۱۵۶”

 

موت کو ایک اتفاقی چیز سمجھنا لاپروائی اور مکمل جہالت ہے۔جیسا کہ اوپر دی گئی آیت سے پتا چلتا ہے، کہ یہ بات انسان کو ایک عظیم روحانی اذیت اور ناقبل مزاحمت پریشانی دیتی ہے۔غیر مومن کے لیے یا وہ جو ایمان نہیں رکھتے کسی رشتہ دار یا پیارے کی موت قرآن کی اصطلاح میں ایک بہت ہی اذیت اور ندامت اور پشیمانی کا سبب بنتی ہے۔موت کو غفلت یا بدقسمتی کا سبب جانتے ہوئے و ہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے بچنے کا کوئی راستہ ہے۔یہ وہ منطق ہے جو انکے دکھ اور ندامت میں اضافہ کرتی ہے۔یہ دکھ اور افسوس اور کچھ نہیں صرف انکے ایمان نہ لانے کا عذاب ہے۔

 

تاہم ظاہر طور پر نظر آنے والی وجوہات کے برعکس، موت نا کوئی حادثہ ہے، نا بیماری اور نہ کوئی اور چیز۔یقینا اللہ ہی ہے جو یہ ساری وجوہات پیدا کرتا ہے۔جب جو وقت ہمیں دیا گیا ہے پورا ہوتا ہے زندگی ختم ہو جاتی ہے اوراسکی کوئی واضح وجہ بن جاتی ہے۔اور اس دوران کوئی بھی مادی وسیلہ انسان کو ایک دوسرا سانس فراہم نہیں کرسکتا۔اللہ پاک اس خدائی قانون کے بارے میں اس آیت میں زور دیتے ہیں:

“کوئی شخص مر نہیں سکتا سوائے اللہ کی اجازت کے ایک پہلے سے مقرر کردہ وقت پر- سورۃ آل عمران۱۴۵”

 

مومن اس دنیا کی زندگی کی عارضی حقیقت سے واقف ہوتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ اسکا رب جسنے اسکو وہ سار نعمتیں عطا کیں جو اس نے اس دنیا میں استعمال کیں، وہ اسکی روح کو جب چاہے قبض کریگا اور پھر اسکو سوال جواب کے لیے حاظر کریگا۔البتہ اسنے اپنی پوری زندگی اللہ کی رضا کے لیے گزاری ہوتی ہے لہذا وہ موت کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتا۔ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس اچھے کردار کے بارے میں اپنی دعا میں ذکر کیا۔

 

“جابر بن عبداللہ سے روایت ہے:جب اللہ کے نبی نے دعا شروع کی تو کہا اللہ عظیم ہے، اسکے بعد کہا:یقینا میری نماز،میری قربانی،میری زندگی اور میری موت صرف اللہ کے لیے ہے، جو تمام جہانوں کا مالک ہے-۲۶۲، ترمذی شریف –”