موجودہ حکومت جِسے ایک لمبی آمریت کے بعد ملک کی پہلی مکمل جمہوری حکومت ہونے پر بڑا ناز ہے اور آج یہی وہ حکومت ہے جو عوام کو مہنگائی، بھوک وافلاس کے کیچڑمیں لت پت کرنے اور بجلی ، گیس اور توانائی کے بحرانوں کے کنوئیں میں دھکیلنے کے بعد جیسے تیسے یعنی اپنے پیر رگڑتے اپنی مدت پوری کرنے کو ہے مگرایسے میں اِسے پھر بھی یہ اُمید ہے کہ عوام اِس کے کارناموں( کرتوتوں) کو دیکھتے ہوئے اِسے ہی دوبارہ اقتدار سونپیں گے مگر مجھے یقین ہے کہ اگراِن گھمبیر حالات کے باوجودمستقبل میں ہمارے یہاں حقیقی معنوں میں صاف وشفاف انتخابات ہوئے۔
جس کی حکمران جماعت کی طرف سے بازگشت( اُلٹ پلٹ کر) سُنائی دے رہی ہے تو پھرعوام کویہ اُمید ضرور رکھنی چاہئے کہ جب آئندہ برس جنرل انتخابات مارچ یا مئی میں ہوں گے تو اِن انتخابات کے بعد کوئی دوسری جماعت برسرِ اقتدار آئے گی جو عوام کے مسائل بھی حل کرے گی اور اِن کے دُکھ کا بھی مداواکرے گی مگر بدقسمتی سے اگر یہی حکومت پھر آگئی تو پھر یہ حسبِ معمول پہلے اپنے لئے سوچے گی اور اگر اِسے عوام کے مسائل اور دُکھ درد کا احساس ہوگیا تو پھر ذراسا خیال اِس کی جانب بھی کرلے گی ورنہ جیساہے جہاں ہے سب ٹھیک ہے کی راگ الاپتے ہوئے اپنی مدت پوری ہونے پر عوام کے مسائل کی طرف توجہ دے گی اور ایک مرتبہ پھرآخری لمحات میں عوام کے ریلیف کے لئے کچھ کرگزرنے کا جذبہ لے کر اِس کے زخموں پر مرہم پٹی رکھے گی۔
آج مجھے یہ لگتا ہے کہ ہماری حکومت کو اپنے آخری لمحات میں عوامی مسائل کے حل کرنے کا خیال آہی گیاہے اِس ہی لئے تو اِس نے عام انتخابات سے قبل عوام سے ووٹ مانگنے کے خاطراپنے قدم اِس کی دہلیز پر رکھنے اور اِس کے سامنے اپنا سر جھکانے سے پہلے ہی اِس نے اپنے اندر عوام سے ہمدردی کا جذبہ پیداکرلیاہے حکمران جماعت کی جانب سے عوام سے ہمدردی کا اظہار اُس وقت کُھل کر سامنے آیا جب ہماری موجودہ انوکھی اور ملک کی پہلی جمہوری حکومت کے اپنے قول و فعل کے حوالے سے منفرد اور انوکھے وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ کے اپنے زیرصدارت ہونے والے اجلاس سے خطاب کے دوران پہلی مرتبہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پرتشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں، وزارتِ خزانہ قیمتوں پر قابوپانے کے لئے اقدامات کرے جبکہ اجلاس میں وفاقی وزراء نے اپنی کوتاہیوں اور نا اہلی کے باعث عوام کو پہنچنے والی تمام تکالیف اور خون نچوڑدینے والی مہنگائی کا سارانزلہ بھی وزارتِ خزانہ پر گرادیا اور وزارتِ خزانہ حفیظ شیخ پر ایسے برسے ایسے برسے کہ وزراء کی تنقیدوں اور جملوں سے بچنا وزارتِ خزانہ حفیظ شیخ کو مشکل ہوگیا تھا اور وہ بے چارے چکراکر رہ گئے تھے کیوں کہ جب وفاقی وزراء وزارتِ خزانہ کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ اور معاشی پالیسی پر وزارتِ خزانہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے تو ایسا لگ رہاتھا کہ جیسے وزراء کریلے چبا کرآئے تھے۔
Raja Pervaiz Ashraf
اِس دوران اُنہوں نے وزارتِ خزانہ پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ یہ الزام بھی لگایا کہ معیشت سُدھارنے کے دعوے محض کتابی اور سیراب جیسے ہیں خبر ہے کہ اِس اجلاس میں وزارتِ خزانہ کو عام انتخابات سے قبل پارٹی کا وقار عوام میںہرحال میں بلندکرنے اور عوام الناس میں حکمران جماعت کا اعتماد اور مورال کا گراف بڑھانے کے ساتھ ساتھ عوام سے زیادہ سے زیادہ ووٹ کے حصول کے خاطر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے اور عوام کودیگر معاملات میں ریلیف دینے کے لئے خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے اور اِسی کے ساتھ ساتھ عوام سے ووٹ لینے کے لئے اشیاء خوردونوش کی قیمتیں کم کرنے کے لئے کابینہ کا خصوصی اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ اجلاس میں جہاں وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اور وفاقی وزراء نے اپنی کوتاہیوں اور نااہلی کا ملبہ وزارتِ خزانہ پر گرایا تو وہیں دھیمے لہجے اور مخصوص انداز سے گفتگوکرنے والے وفاقی وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا بھی درجہ حرارت اور بلڈپریشر بڑھ رہاتھا اورجب اُنہوں نے بھی اپنے برداشت کی حدود پھلانگ کر اپنی زبان ہلائی اور ٹکہ سا جواب دیاتو اچھے اچھوں کے ہاتھ کے طُوطے اور طُوطیاں اُڑگئیںاور سب اپنامنہ بناکر بغلیں جھانکنے لگے کیوں کہ جب وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزارتِ خزانہ کی طرف سے حکومت کی دی جانے والی معاشی پالیسی کی روشنی میں تیارکی گئی بریفنگ پر وفاقی وزراء کڑوے گھونٹ پی پی کر تنقیدیں کررہے تھے اُس وقت وزیرخزانہ خاموش رہ کراپنے ساتھیوں کی طوطاچشمی دیکھ رہے تھے مگر اَب جیسے ہی اِن کا بولنے کا وقت آیاتو وفاقی وزیرخزانہ نے کہاکہ مہنگائی کا ذمہ دار ایک میں ہی اکیلانہیں ہوں آپ سب اور حکومت بھی اِس میں برابر کی شریک ہے۔
حفیظ شیخ نے کہا کہ میری طرف دیکھ کر میری بات غور سے سُنیں یہ فیصلہ کس کا تھاکہ پہلے بلوچستان کو 40ارب روپے جاتے تھے اور اَب 110ارب روپے دے دیئے یہ فیصلہ آپ سب اور حکومت کا تھا جو مجھ پر آج تنقیدیں ہورہی ہیںمیرایہ فیصلہ قطعاََ نہیں تھا ساڑھے تین کروڑ لوگوں کو ہر ماہ ہزار ہزارروپے دے جارہے ہیںیہ بھی میرافیصلہ نہیں تھا آپ لوگوں کا ہی تھا اور اِسی کے ساتھ ہی ڈاکٹر حفیظ شیخ نے اِس موقع پر یہ انکشاف بھی کرڈالاہے کہ آج صوبوں کو جو پیسے جارہے ہیںاِن کے استعمال سے متعلق ہم اِن سے پوچھ بھی نہیں سکتے ہیںاور کیا کوئی اِس بات اور اِس حقیقت سے بھی انکار کرسکتا ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے پاس وزیراعظم سے زیادہ فنڈ ہیں جبکہ وزیرخزانہ کا یہ کہنامعنی خیز ہے کہ جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے پرائس کنٹرول صوبوں کا اختیار ہے وفاق اِس پر کوئی مداخلت نہیں کرسکتاہے تو یہاں سوال یہ پیداہوتاہے ڈاکٹرحفیظ شیخ جی جب آپ صوبوں سے پیسوں سے متعلق پوچھ نہیں سکتے ہیں اور پرائس کنٹرول بھی نہیں کرسکتے ہیں تو پھر صوبوں کو جھولیاں بھر بھر کر پیسے کیوں دیتے ہوجی ..؟اور کیوں وزیرخزانہ بن کر کوئلوں کی دلالی میں (منہ بھی کالاکپڑے بھی کالے) ہاتھ کالے کررہے ہو..؟چھوڑدو وزارت…ورنہ میں سمجھوںگا کہ تم کوبھی کچھ فائدہ ہے۔