12 ربیع الاوّل آیا اور گزر گیا۔ہم ہر سال یہ دن پورے تزک و احتشام اور مذہبی جوش و جذبے سے مناتے ہیںاور کیوں نہ منائیں کہ یہ دن میرے آقا وجۂ وجودِ کائینات ، سید الثقلین ، امام القبلٰتین، رحمت للعالمین ، نبیٔ آخر الزماں، احمدِ مجتبیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارک سے منسوب ہے۔ اس دن ہم جی بھر کے چراغاں کرتے ، جلوس اور ریلیاں نکالتے ، درود و سلام کی محفلیں منعقد کرتے اور محافلِ شبینہ کا اہتمام کرنے کے باوجود بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ”حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا”۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا اتنے اہتمام کے باوجود بھی میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمتیں ، برکتیں ، عنایتیں ، شفقتیں اور محبتیں ، ہم پر سایہ فگن ہوتی ہیں ؟۔ کیا ہماری دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ، اور کیا ربّ ِ کریم کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ؟۔ شاید نہیں بلکہ یقینا نہیں۔
وجہ صرف یہ کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہوتا ہے اور تحقیق کہ ہماری نیتوں میں کھوٹ ہی کھوٹ ہے ۔ہم ایک طرف تو داعیانِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جبکہ دوسری طرف سگانِ دُنیا۔ حکمت کی کتاب کہتی ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم تمہیں بتائیں کہ ان میں سب سے زیادہ بد نصیب کون ہے ؟۔ وہ کہ جس کی عبادتیں روزِ قیامت ہم اُس کے مُنہ پر دے ماریں گے۔ لاریب ربّ ِ کریم کو ایسی عبادتوں کی مطلق ضرورت نہیںجو حیوانی جبلتوں اورنفسانی خواہشات پر قابو پانے سے قاصر رہیں۔
شاعرِ مشرق حضرتِ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی شاعری میں اسی بے عملی اور دو عملی کا جا بجا نوحہ ملتا ہے۔ وہ اپنی کشتِ ویراں سے نا اُمید تو ہر گز نہیں تھے لیکن اُنہیں یہ دُکھ ضرور تھا کہ مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا ہم نمازی تو شاید ہوں سوال مگر یہ ہے کہ کیسے؟۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے”نماز ایسے پڑھو کہ جیسے تُم خُدا کو دیکھ رہے ہواور اگر ایسی نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم ایسی ضرور پڑھو کہ خُدا تمہیں دیکھ رہا ہے”۔ لیکن ہماری نمازیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ نہ ہم خُدا کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور نہ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ ہماری نمازیں تو اُس جاٹ کی سی ہیں جو ایک دفعہ اپنے کھیتوں میں نماز پڑھ رہا تھا اور سسّی جو اپنے محبوب سے ملنے دیوانہ وار بھاگی چلی جا رہی تھی ،اس کے آگے سے گزر گئی۔ جاٹ نیت توڑ کر اُس کے پیچھے بھاگا اور بالوں سے پکڑ لیا۔
سسّی نے حیرت سے پوچھا ”مجھ سے کیا خطا ہوئی”؟۔ دیہاتی نے کہا ”میں نماز پڑھ رہا تھا اور تُو میرے آگے سے گزر گئی جس سے میری نماز باطل ہو گئی”۔ سسّی نے مُسکرا کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ”واہ ربّا ! سسّی ایک دُنیاوی محبوب کے عشق میں اتنی دیوانی ہو گئی کہ اسے دائیں بائیں کی کچھ خبر نہیں اور یہ محبوبِ حقیقی کے آگے جھُکا ہے اور پھر بھی جانتا ہے کہ سسّی اس کے آگے سے گزر گئی”۔ بس ایسی ہی ہوتی ہیں ہماری نمازیں بھی جن میں خشوع ہے نہ خضوع اور نہ ہی عشق کی آگ۔اقبال نے ایسے ہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ بُجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے مسلماں نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے
Eid Milad Un Nabi Mehfil
تحقیق کہ ہم لاکھ درود و سلام کی محفلیں سجا لیں ، جلسے کر لیں ، جلوس نکال لیں لیکن سب عبث کہ یہ سب کچھ ہم صرف ایک مخصوص دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ ہماری آنکھیں اشک بار تو ضرور ہوتی ہیں لیکن دلوں میں گداز پیدا نہیں کرتیں اور یہ گداز تب تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم اپنے دلوں کے اندر عشقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ جوت نہ جگا لیں جو ہمارا جُزوِ ایمان ہے۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ”تحقیق کہ تمہارا دین اُتنی دیر تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ میں تمہارے ماں باپ ، اولاد ، عزیز ، رشتہ دار حتیٰ کہ دُنیا کی ایک ایک شٔے سے پیارا نہ ہو جاؤں”۔ اب اپنے دلوں سے گواہی لے لیجئے کہ اِس سے سچی گواہی کوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ کیا واقعی ہم فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس معیار پہ پورا اُترتے ہیں؟۔ اگر نہیں اور تحقیق کہ نہیں تو پھر کیا فائدہ ایسی محافل کا اور ایسے چراغاں کا۔
میں تسلیم کرتی ہوں کہ ہم نفسا نفسی کے اِس دَور میں قرونِ اولیٰ کے مسلمان نہیں بن سکتے کہ اُنہیں تو سرورِ کائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی کی سعادت حاصل تھی ۔اب بلالِ حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کے سے عاشق کہاں کہ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دُنیا سے تشریف لے جانے کے بعد محض اِس لیے اذان دینا چھوڑ دی کہ سامنے اُن کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما نہیں ہوتے تھے اور جب ایک دفعہ ہمت کرکے اذان کے لیے کھڑے ہوئے بھی تو جب نامِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لبوں پہ آیا تو سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پا کرغش کھا کر گِر پڑے۔ کہاں سے لائیں حضرتِ اویس کرنی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ جیسے عاشق کہ جو بوڑھی ماں کی خدمت کی بنا پر ساری زندگی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے محروم رہے۔
جب پتہ چلا کہ غزوۂ اُحد میں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو دندان مبارک شہید ہو گئے تو اپنے سارے دانت صرف اِس لیے توڑ ڈالے کہ پتہ نہیں آپۖ کے کون سے دندان مبارک شہید ہوئے۔ نہ غزوۂ اُحد کے اُن شہداء کا سا کوئی عاشق ہو سکتا ہے جنہوں نے سارے تیروں ، تلواروں ، برچھیوں ، نیزوں اور بھالوں کے وار اپنے جسموں پر سہہ ڈالے لیکن آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چاروں طرف سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹے رہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اُس مقام تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا لیکن اُنہی عاشقانِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ہم اپنے آپ کو بدلنے کی سعی تو کر سکتے ہیں لیکن ہم تو مثل اُس بھِڑ کے ہیں جو ایک بار پروانوں کی محفل میں گیا اور کہا ”مجھے بھی اپنے قبیلے میں شامل کر لو ”۔ پروانوں نے کہا ”بسم اللہ ! لیکن ذرا پہلے جا کردیکھ آؤ کہ کیا شہر میں روشنیاں جل اٹھی ہیں ”؟۔ بھِڑ اُڑا ، شہر پہنچا تو دیکھا کہ سارا شہر جگمگا رہا تھا۔ اُس نے واپس آ کر پروانوں کو کہا ”سارا شہر جگمگ جگمگ کر رہا ہے ”۔ پروانوں نے کہا ”تو ہمارے قبیلے میں شامل نہیں ہو سکتا’۔ بھِڑ نے حیرت سے سوال کیا ”کیوں؟ میں نے شرط تو پوری کر دی۔ اب کیوں شامل نہیں ہو سکتا؟’۔ پروانوں نے کہا ”تُو اگر عاشق ہوتا تو وہیں جل مرتا ، واپس نہ آتا’۔
Eid Milad Un Nabi
حیرت ہی نہیں دُکھ بھی ہوتا ہے کہ ہم اِس با برکت دن کو بھی ایک رسم کے طور پہ نبھاتے ہیں۔ ہمارے سارے انٹرٹینمنٹ چینلز اِس دن کا بھر پور اہتمام کرتے ہیں لیکن وہی چینلز جہاں سے محض ایک دن پہلے درود و سلام کی پاکیزہ صدائیں فضاؤں کو معطر کر رہی ہوتی ہیں ، وہیں پر اگلے ہی دن وہی ڈرامے ، فلمیں ، ذو معنی جملے ، جگت بازی اور پھکڑ پن پورے اہتمام سے جاری و ساری ہو جاتا ہے اور ہم جن کے گلے ”صدقے یا رسول اللہ” کے نعروں سے بیٹھ چکے ہوتے ہیں ، وہی ڈرامے اور فلمیں پورے ذوق و شوق کے ساتھ دیکھنے میں مگن ہو جاتے ہیں۔
یہ دو عملی پورے معاشرے میں ناسُور کی طرح پھیل چکی ہے اورہماری پوری معاشی و معاشرتی زندگی اسی دو عملی کے پنجۂ استبداد میں جکڑی دکھائی دیتی ہے۔معاشرے کی نَس نَس میں بھرے اِس موادِ بَدکی جراحی کی کوئی صورت ، کوئی سبیل نظربھی نہیں آتی ۔فرقوں ، گروہوں اور نسلی تعصبات میں گھری اِس قوم کا قبلہ درست کرنے کے لیے کون آئے گا ، کچھ پتہ نہیں۔ یہ البتہ طے ہے کہ اِس قوم کا بھلا تب تک ممکن نہیں جب تک یہ شرارِ بو لہبی سے دامن چھُڑا کر چراغِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصول کی خاطر اپنا تَن مَن دھَن ، سب کچھ نثار کرنے کے لیے تیار نہیں ہو جاتی۔