اسلام آباد : (جیو ڈیسک)میمو تحقیقاتی کمیشن نے منصور اعجاز کے بلیک بیری موبائل فونز کا فرانزک ٹیسٹ کرانے کی ہدائت کر دی۔ حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے موبائل فونز کے فرانزک ٹیسٹ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کمیشن کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔اسلام آباد میں میمو کمیشن کا اجلاس جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر صدارت ہوا۔ کمیشن نے اپنے سیکرٹری کو لندن جا کر منصور اعجاز کے ان بلیک بیری موبائل فون سیٹوں کا فرانزک ٹیسٹ کرانے کی ہدائت کی ہے جن سے امریکی ایڈمرل مائیک مولن کو میمو بھیجا گیا تھا۔
کمیشن نے حسین حقانی، منصور اعجاز اور انکے وکلا کو بھی موبائل فونز کے فرانزک ٹیسٹ کے وقت موجود ہونے کی اجازت دے دی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ فرانزک ٹیسٹ اور رپورٹ کی تیاری میں وقت لگے گا۔ اس دوران کمیشن کو دیا گیا وقت ختم ہوسکتا ہے اس لئے سپریم کورٹ سے کمیشن کی مدت میں تیسری بار توسیع کی درخواست کی جائے گی۔ دوسری جانب حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے منصور اعجاز کے موبائل فونز کے معائنے کو مسترد کر دیا ہے۔ انکا موقف ہے کہ وکلا کے حتمی دلائل مکمل ہو چکے ہیں جس کے بعد موبائل سیٹس کا فرانزک ٹیسٹ غیر قانونی ہوگا۔ فرانزک ماہر کی رائے دلائل مکمل ہونے سے پہلے لی جانی چاہئیے تھی اس سے پہلے کمیشن کے اجلاس میں حسین حقانی کا فون سیٹ چوری ہونے کے عوض جمع کرائی گئی رقم کی رسید اور میڈیکل رپورٹس کو ریکارڈ کا حصہ بنانے پر بحث کی گئی۔
حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری کی جگہ ان کے معاون ساجد تنولی نے دلائل دیئے۔ کمیشن نے کہا کہ حتمی دلائل کے بعد زاہد بخاری نے درخواست جمع کرا دی اور پیش بھی نہیں ہوئے، حقانی کے فون بلز سروس پرووائڈر سے براہ راست نہیں آئے اور نہ ہی منصور اعجاز کی دستاویزات پر حسین حقانی کے جمع کرائے گئے جواب پر ان کے دستخط ہیں۔ ساجد تنولی نے کہا کہ فون بلز کی نقل کے لیے حقانی نے بلیک بیری کمپنی کو خط لکھ دیا تھا. منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ حسین حقانی نے امریکہ میں منصور اعجاز کے خلاف ہرجانے کا دعوی کیا ہے تو وہاں موبائل پیش کرنے میں مشکلات ہوں گی۔
کمیشن نے پوچھا کیا ہرجانے کے نوٹس پر کارروائی شروع ہو گئی ہے اور لیگل نوٹس کی کاپی موجود ہے۔؟ اکرم شیخ نے کہا کہ کارروائی کے لیے تین ماہ کا وقت ہوتا ہے انھیں قانونی نوٹس کی نقل نہیں ملی۔ وکیل نے فون پر نوٹس بارے آگاہ کیا ہے۔ ساجد تنولی نے کہا ان کی اطلاع کے مطابق حسین حقانی نے ہرجانے کا کوئی دعوی نہیں کیا۔ کمیشن نے اس حوالے سے رائے کے لیے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا ہے۔