قبل مسیح سے دریائے نیل کے کنارے درخت (انجیر، شہتوت) کی چھال کو لکھنے کیلئے کاغذ کی شکل دینے کے آثار ملتے ہیں مگر 105عیسوی میں چین نے وہ کاغذ تیار کیا جسے آج کے کاغذ کی ابتداء کہا جا سکتا ہے پھر 800عیسوی میں یہ علم چین جانے والے مسلمان تاجروں نے حاصل کیا اور جلد ہی بغداد، دمشق، قاہرہ میں اسکے کارخانے قائم ہونا شروع ہو گئے۔ پہلی چینی کتاب 868 عیسوی میں شائع ہوئی جبکہ پندرہویں صدی میں چھاپہ خانہ ایجاد ہونے سے کاغذ کا استعمال عام ہونا شروع ہو گیا ورنہ قدیم زمانہ میں کتابیں پتھروں، مٹی کی تختیوں، درختوں کے پتوں، چھال سوتی ، ریشمی کپڑے اور چمڑے پر لکھی جاتی تھیں۔ کاغذ کے موّجد کو اگر یہ علم ہوتا کہ جس شے کو وہ ایجاد کرنے جا رہا ہے وہ کئی صدیاں بیت جانے کے بعد کسی ملک میں ایک بے وقعت اور فضول ٹکڑے کی حیثیت اختیار کرلے گا تو شاید وہ یہ کارنامہ انجام نہ دیتا۔ برطانوی اخبار میں پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کے شائع ہونیوالے ایک مضمون نے پاکستانی قصر نشینوں کی خواب گاہوں اور غلام گردشوں میں ایسی ہلچل مچا دی ہے کہ آج وہ خفیہ خط یا مراسلہ جو ”میمو” کے نام سے شہرت اختیار کر چکا ہے ،زبان زدِ عام ہے۔اس میمو کے مندرجات ملک سے غداری کے زمرے میں آتے ہیں اور اسی بناء پر امریکہ میں تعینات سفیر حسین حقانی سے استعفیٰ لیا گیا۔ میموگیٹ اسکینڈل کے منظرعام پر آنے کے بعد پہلی بار حکومت اور عسکری ادارے آمنے سامنے ہیں جبکہ سپریم کورٹ ریفری بن چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے میمو سے متعلق دائر درخواستیں قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے کمیشن تشکیل دے دیا ہے جبکہ حکومت بھی اپنے تئیں پارلیمانی کمیٹی بنا چکی ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ابھی تک وزیراعظم سمیت ہر حکومتی عہدیدار اس میمو کو کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار دے کر مسترد کر رہا ہے جبکہ عوام کاغذ کے اس ٹکڑے پر لکھی گئی عبارت کی اصل حقیقت جاننا چاہتی ہے۔ میمو کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن کاغذ کے اس ٹکڑے پر لکھی عبارت انتہائی چونکا دینے والی ہے ۔ نکاح نامہ اور طلاق نامہ بھی کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے لیکن اس پر درج تحریر کی زندگی میں بڑی دخل اندازی ہوتی ہے۔ چیک بھی کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے لیکن بغیر تحریر کے اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ دو ملکوں کے درمیان ہونیوالے معاہدے بھی کاغذ کے تحریری ٹکڑے پر ہوتے ہیں اور کوئی حکومتی نمائندہ سادہ کاغذ پر دستخط نہیں کرتا ۔ یہاں تک کہ کوئی قانون اور مذہب بھی کسی تحریر کو پڑھے بغیر اور سادہ کاغذ پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح جائیدادوں اور مکانات کی رجسٹریاں بھی کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوتی ہیں۔ کاغذ پر ہی کسی کی پھانسی کے آرڈر ہوتے ہیں جو ایک معمولی قیمت کی قلم سے لکھے جاتے ہیں۔ تعلیمی اسناد اور ڈگریاں بھی کاغذ کا ٹکڑا ہوتی ہیں لیکن ان کی اہمیت کا اندازہ اُنہیں ہی ہوتا ہے جو تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر ترقی کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جعلی ڈگری ہولڈرز کیلئے ان ڈگریوں کی اہمیت کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہوتی بلکہ اُن کے نزدیک ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے جعلی ہو یا اصلی۔ اسی طرح شناختی کارڈ، ڈومیسائل اور پاسپورٹ وغیرہ بھی کاغذ کے ٹکڑے ہوتے ہیں اور ان کے بغیر شناخت مشکوک ہو جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کرنسی نوٹ بھی کاغذ کے ٹکڑے ہی ہوتے ہیں ۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ خطوط انسانی زندگی کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے ہی مکتوب نگار کی سیرت،شخصیت اور پیش آنے والے واقعات، معاشی و سیاسی تغیرات اور تاریخی عوامل باآسانی معلوم ہو جاتے ہیں، نیز کسی شخص کے انفرادی و اجتماعی حالات معلوم کرنے کیلئے اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ زمانہ قدیم سے لیکر آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ان کی اہمیت قائم و دائم ہے۔ نبی کریمۖ نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے بادشاہوں، قبائل عرب کے سرداروں اور گورنروں کے نام جو خطوط لکھے ان کی تعداد تین سو کے قریب ہے، ان میںسے ایک سو انتالیس خطوط ایسے ہیں جن کا اصل متن محفوظ ہے اور چھیاسی خطوط وہ ہیں جن کا صرف مفہوم کتب میں ذکر کیا گیا ہے۔گزشتہ دو صدیوں میں آپۖ کے چھ مکتوبات اپنی اصلی حالت میں دستیاب ہو چکے ہیں، یہ مکاتیب نجاشی شاہ حبشہ، منذر بن ساوی گورنر بحرین، قیصر روم ہرقل، شاہ مصر و اسکندریہ مقوقس، شہنشاہ ایران خسرو پرویز کسریٰ، شاہ عمان جیفر و عبدان کے نام ہیں۔آپۖ نے ہمسایہ ممالک کے حکمرانوں اور عرب کے قبائلی سرداروں کے نام جو خطوط تحریر فرمائے ان کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آپۖ نے دنیا میں کس طرح ذہنی، فکری اور عملی انقلاب برپا کیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتۖ نے ایک خط اہل سندھ کی جانب بھی ارسال فرمایا تھا جو نتیجہ خیز ثابت ہوا اور سندھ کے کچھ خوش قسمت حضرات حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔اگر ان خطوط کی اہمیت زمانہ قدیم میں پتھروں، مٹی کی تختیوں، درختوں کے پتوںاور چھڑے کی کھال تک محدود ہوتی تو پھرحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بادشاہوں، قبائل سرداروں، گورنروں کو خطوط لکھنے کی نوبت پیش نہ آتی ۔یہاں تک کہ اس وقت قرآن پاک جس شکل میں موجود ہے وہ بھی آنحضرتۖ اپنی نگرانی میں لکھواتے رہے اور حفاظ کو یاد بھی کراتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توریت بھی پتھروں پر کنندہ تھی۔اگر زمانہ جدید میں کاغذ کی حیثیت ایک فضول اور بے وقعت ٹکڑے تک محدود ہوتی تو پھر متنازعہ میمو کی تحقیقات کیلئے آج عدالتی اور حکومتی کمیشن تشکیل نہ پاتے، حسین حقانی سے استعفیٰ نہ لیا جاتا اور حکومتی نمائندوں کو بھی ایسے بیانات دینے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ میمو کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔ حکومت کی نظر میں یہ ایک بے وقعت ٹکڑا ہی سہی لیکن ملک کے محب وطن عوام اصل حقائق جاننا چاہتے ہیں کیونکہ یہ متنازعہ میمو کئی شکوک و شبہات کو جنم دے چکا ہے ۔عوام کو کاغذ کے اس ٹکڑے سے کوئی غرض نہیں بلکہ وہ اس کاغذکے ٹکڑے پر لکھی گئی عبارت کے اصل حقائق اور اسکے مرکزی کرداروں بارے جاننا چاہتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ یہ متنازعہ میمو عالمی سازش کا حصہ ہو اور اس کا مقصد حکومت اور عسکری اداروں کو لڑانا مقصود ہو لیکن یہ سب کچھ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔ ملک کے کروڑوں محب وطن عوام کی نظریں بھی عدالت عظمیٰ پر لگی ہوئی ہیں اس لیئے بہتر یہی ہے کہ ا سکے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی بجائے اسے غیر جانبدارانہ تحقیقات مکمل کرنے دیا جائے تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے آ سکی۔تحریر: نجیم شاہ