نائجیریا میں بم دھماکوں کے بعد کرفیو نافذ

kano

kano

نائجیریا کے جنوبی شہر کانو میں گزشتہ روز ہونے والے بم دھماکوں کے بعد کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔گزشتہ روز ہونے والے مربوط اور سلسلہ وار بم دھماکوں میں آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔یہ بم دھماکے پولیس سٹیشنوں اور ریاستی پولیس ہیڈ کوارٹر میں کیے گئے تھے جبکہ شہر کے مختلف حصوں میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئی تھیں۔شدت پسند گروپ بوکو حرام نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ مقامی زبان میں بوکو حرام کے معنی مغربی تعلیم حرام کے ہیں۔
ملک کے شمالی مسلمانوں کے علاقوں میں یہ گروپ حالیہ دنوں میں د ہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔اسی د وران متنازع  سول کارکنان کی جانب سے دارالحکومت لاگوس میں سنیچر کو بلائے گئے عوامی جلسہ کو د ھماکوں کے تناظر میں معطل کردیا گیا ہے۔حکومت میں کرپشن اور لاگوس میں فوج کی موجودگی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے اور عوامی جلسے کا انعقاد کرنے والے منتظمین نے جسلے کو ملتوی کرنے کا جواز پیش کرتے حکام کا کہنا ہے کہ جمعہ کو ہونے والے حملوں کے بعد کانو میں کرفیو غیر معینہ مدت کے لیے لگایا گیا ہے۔شہر کی سڑکوں پر پولیس اور فوج نے رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں اور سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔پولیس نے اپنے بیان میں کہا ہے سات ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہے تاہم ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ موجود ہے۔ ان حملوں میں چار پولیس سٹیشنز، پولیس ہیڈ کوارٹر اور پاسپورٹ آفس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
پولیس ہیڈ کوارٹر پر ہونے والے حملے میں قریبی عمارتوں میں رہنے والے غیر ملکی بھی زخمی ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر بھارتی اور لبنانی باشندے ہیں۔شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے ترجمان ابوالقاقا نے شمال مشرقی شہر مید وگوری میں واقع تنظیم کے ہیڈکوارٹر پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے گروپ نے یہ حملے حکام کی جانب سے کانو میں تنظیم کے گرفتار اراکین کو رہا کرنے سے انکار پر کیے ہیں۔یہ گروپ نائجیریا میں اسلامی قوانین نافذ کرنا چاہتا ہے۔بوکو حرام کے رہنما محمد یوسف کی سنہ دو ہزار نو میں پولیس حراست میں ہلاکت کو بھی سرکاری عمارتوں پر حملے کرنے کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ہوئے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ جسلے میں شر پسند عناصر کے شامل ہونے سے یہ درہم برہم ہوسکتا ہے۔