درحقیقت 712ء میں حجاج بن یوسف کے داماد اور نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم کی راجہ داہر کو شکست اور فتح سندھ کے بعد بر صغیر میں مسلمانوں کی اپنی کردا ر ،سچائی ،ایمانداری،بہادری اور نظریہ حق کی وجہ سے اقلیت میں رہ کر اکثریت پر مضبوط ترین حکومت ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اوربہت کم وقت میں عروج حاصل کرکے برصغیر کو سونے کی چڑیا بنایا۔کاروبار و تجارت کی پاکیزگی اور انصاف نے برصغیر کو اپنے خطے میںالگ نام و مقام دیا جس کاسہرا مسلمانوںکی بادشاہت کو جاتاہے کیونکہ اُس میں کسی کے ساتھ کوئی کاروباری ،اخلاقی ، لسانی ،مذہبی،فرقہ واری ، ذاتی طور پر ظلم و ستم کرنے کی صلاحیت نہیں کسی کو جرت بھی نہیں تھی کہ ناانصافی کرے۔
یہ وہ دور تھاجس دورمیں اسلامی حکومتوںکے چرچے سن کے لوگ جوک درجوک اسلام میں داخل ہو کر اللہ پاک کو سجدے کرتے۔ اس طرح وقت گزرتاگیا۔تقریباً ایک ہزار سال تک برصغیر میں اسلامی حکومتوں کا عروج رہامگر افسوس کہ چند ایک نا اہل ،عیاش پرست ، بیوقوف اور بے فکر لوگوں کے ہاتھ اقتدار لگ گیااور اُسی عروج کو زوال نصیب ہوا ۔انگریزوں کی میلی آنکھ بر صغیر میں قبضہ کرنے میںکامیاب ہوگئے۔1857ء کو بہادر شاہ ظفر کویر غمال بناکر دھوکہ سے تخت دہلی کو برطانیہ منتقل کردیااور سونے کی چڑیا کی حالت بدل ڈالی۔مسلمانوںکو آپس میںلسانیت ،فرقہ واریت ،شہریت ،قومیت جیسے جنگوںمیں بلیک میل کرکے لڑائیاں شروع کروائی گئی ۔ انگریزو ں سے سب سے بڑا کام اسلامی نظام حیات کو تبدیل کرکے انگریزی نظام حیات کو عروج بخشا یہ عمل انتہائی زیادہ کامیاب ہوگیا۔
مسلمانوں کے پختہ ایمان کو کمزور کردیا۔ ہندووں مسلمانوں، سکھوں ،عیسائیوںکو آپس میں لڑا کر سونے کی چڑیا کو لو ٹتے رہے۔یہ سلسلہ ایک وقت تک چلتا رہا مگر اللہ تعالیٰ کی فضل وکرم سے بر صغیر میںعلامہ محمد اقبال، قائداعظم اور سر سید احمدخان جیسے بزرگ بھی پیدا کیے۔مری اور سوئی ہوئی قوم کو پھر سے جگایا اور متحد کرکے جدوجہد شروع کروائی اور آخر لاکھوں، ہزاروں کی قربانیاں رنگ لائی اور ناپاک اور انگریزو ں کو بھگانے میں اسلامی قوم کامیاب ہوگئی۔ہندوستان کو دو حصوںمیں تقسیم کردیاگیاایک مسلمانوںکے لیے تو دوسرا ہندووںکیلئے باقاعدہ پاکستان14اگست 1947ء آزاد ملک کی حثیت سے نو پید ا ہوا ۔
اسی طرح نظام انگریزی کا خاتمہ ہو گیا مگر افسوس کہ نظام انگریزی کا خاتمہ نہیںہوا نہ اُس وقت ہوا نہ ہی آج کے اس دور میں کوئی ذرا برابر خاتمہ ہوا۔ہاں البتہ ایک تبدیلی ضرور آگئی کل یعنی انگریزی دور حکومت میں انگریزی نظام جواز رکھتا تھامگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی دور میں انگریزی نظام نے عروج حاصل کیاہے۔انگریزی دور میںاور آج کے دور میں1000گنا ذیادہ عروج حاصل کیاہے درحقیقت انگریزوں کو بھگایا گیامگر ہماری قوم نے انگریزی نظام کو بھگانے کے بجائے سینے سے لگالیا۔
انگریز خود تو گئے پر اپنا نظام چھوڑ گئے ہیںمیرا کہنے و لکھنے کا مقصد سے صاف صاف ظاہر ہے کہ جس مقصد کے لیے انسان کوئی قدم اُٹھاتا ہے تو وہ حاصل نہیں کرسکتا تو قدم کو بیکار غلط یا ناکارہ سمجھا جاتاہے ۔انگریزی حکومت سے آزادی کا مقصد تھا کہ ایک ایسا ملک پیدا کیا جارہاہے جہاںصرف اور صرف مسلمان ہونگے۔اسلامی نظام ہو گا۔آزادی ہو گی ،کسی قسم کی کوئی غنڈہ گردی ،چوری ،ظلم و زیادتی نہیںہوگی۔ اس ملک میںرہنے والوںکی اخلاقی ، اقتصادی ،معاشی ،مذہبی ،انصاف،لوگوںکی عزت و آبرو جان ومال کی حفاظت کی جائیگی۔غریبوں،یتیموں، مفلسوں ،مسکینوںاور عورتوں کا احترام کیا جائے گا۔
عوام کاتحفظ ، صحت ،تعلیم،روزگاردیاجائیگا۔اسلام کو پھیلانے کے لیے تبلیغ بھی کی جائے گی۔جدید ترقی اور خوشحالی پیدا کیاجائیگا۔یعنی ہر قسم کی ضروریات ،مراعات اور اقدامات کیے جائیںگے۔ایک آزاد اسلامی نظریاتی معاشرہ پیدا کیا جائیگاجس کیلئے مسلمانوں نے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا گیا۔جدوجہد نے کامیابی تو دلاہی دی مگر میں سمجھتاہوں کامیابی نہیں ۔جدوجہد والوںنے تو اچھا کیا مگر جس کے لیے جدوجہد کی گئی انھوںنے ناکام بنا دیا۔
Pakistan
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی موجودہ حالات ایک کھلی کتاب ہے سارا سلسلہ نظام کو درہم برہم کیا گیاہے ۔مقصد کو نظر انداز کرکے ملک کو ایک ایسے چوراہے پر لاکھڑا کیا گیاہے کہ چاروںاطراف اور اُوپر نیچے منزل نظر نہیںآتی۔ہر طر ف گہرائیاں ہی گہرائیاں ۔ہم جنگ عظیم میں پھنس چکے ہیں۔ لسانی ،فرقہ واریت ،معاشی ، قبائلی جنگوںمیں خود کو تباہ و صفحہ ہستی سے مٹارہے ہیں۔ حالات خطرناک سے خطرناک تر ہوتے جارہے ہیں۔اللہ اور حضرت محمد کے نام پر حاصل کیا گیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بیڑہ غرق64سالوں سے ہی کیاگیا ہے ۔حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو انگریزوں کے دور میں اتنی فرقہ واریت ، لسانیت ،قومیت ،دہشت گردی ،انتہاپسندی،لاقانونیت ،کرپشن ،سچ کی مخالفت ،غیر اخلاقی ،غیر مساوات اور ناانصافی نہیں تھی جتنی آج کے دور میںاسلامی جمہوریہ پاکستان میںچل رہی ہے ۔ہمارا مقصد ناکام، ناکارہ اور ادھورا ہی رہ گیاہے۔ میرے نظر میںدنیا کا بدترین غیر اخلاقی،غیر مساوی اور کرپٹ مُلک ہے تو وہ پاکستان ہے۔اللہ نے ہر چیز دیاہے پانی،آٹا ،معدنیات گیس بلکہ دنیاکا ہر تحفہ دیامگر ہم ناکام ہیںمحروم ہیں۔ترس اور تڑپ رہے ہیں۔مایوس ہیںآخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
بلوچستان کا سنگین اور فکر یہ حالا ت ناقابلِ برداشت ہیں۔کوئٹہ بلوچستان بھر ، کراچی ، وزیرستان اور بلکہ مُلک بھر میں حالات لرزانے اور جسم و روح کو تڑپانے والی ہیں۔ مگر حکمران طبقہ اسکے بر عکس مسخرے بازیوں میں وقت صرف کر رہے ہیںاور پرویز مشرف کی طرح بھاگ کر تحریک انصاف یا ن لیگ کو اگلی حکومت دیکر پھر سے عوام کو بیوقوف بنانے کا خاکہ تیارکر ہے ہیںمگر افسوس کہ اللہ کے روز قیامت سے قیامت کے احتساب سے نہیں درتے ہیں۔اے میرے پاک حکمرانوں کیوں؟غافل ہو گئے ہو تم لوگ اللہ سے ڈرو ۔ درحقیقت میں انتہائی زیادہ پریشان اور مایوس رہتاہوں کہ ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟موجودہ حالات صاف صاف بتارہے ہیںکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نہیں بلکہ انگریزی جمہوریہ پاکستان ہے کیونکہ جس کو عربی آتاہے قرآن کا حافظ ہے مسجد کا امام ہے عالم ہے مدرسے میں پڑھارہاہے اگر اس کو تنخواہ ملتی ہے 3000روپیہ اور جس کو انگریزی زبان آتاہے تو ایک آفیسر بن جاتا ہے 50,000ہزار روپیہ تنخواہ ۔ سورة اخلاص پڑھنا نہیں آتا تو وفاقی وزیر ، جعلی ڈگری ہے تو وفاقی وزیر ہے۔
اخلاق اور انصاف نہیں آتا تو بھی وفاقی وزیر ہے مگر یتیم بچہ روٹی کپڑا اور مکان کے بجائے پڑھ لکھ کر حافظ قرآن عالم بن جاتاہے ، مسجدکا امام ، یا عربی استاد بن جاتاہے تو پہلی بات تو روزگار ہی نہیںملتا اگر ملتاہے تو 3000روپیہ تنخواہ ۔بلکہ شرم ناک بات ہے اسلامیات کو نہیں انگریز یوں کو عزت اور مرتبہ ،شراب ،جوا ،سود ،حرام خوری ،فحاشی سے لیکر وہ نظام جس کی اللہ تعالیٰ عزوجل نے قر آن مجید میں واضح طور پر منع کیا ۔گناہ قرار دیا ۔حرام قرار دیا بلکہ ان اعمال کو اللہ اور اللہ کے رسول کے خلاف جنگ قراردیاہے مگر دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کھلم کھلا بلکہ یہاں تک شراب جوے کے اڈوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان سرٹیفیکیٹ جاری کرتاہے ۔سرپرستی کرتاہے ۔سیکورٹی فراہم کرتاہے ۔اعلیٰ حکام کو نظر انداز کرنے والے اعلٰی افسران و حکام کو شرم تک نہیںآتی ہے کہ اسلام جس چیز کی مخالفت کر تاہے کی سربراہی سرپرستی اور اجازت نامہ دیکر اسلام کے اُصولوں کے مخالف ہو نے کا ثبوت دے رہے ہیں۔سود کو بھول بھی ہم کیسے سکتے ہیں۔
سارا پاکستان سود کے پیسوں پر چل رہاہے ۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سودی نظام پر یقین کرنے والے تمام اداروںکو جمعیت علماء اسلام،جماعت اسلامی ودیگر سیاسی مذہبی جماعتیںکیوںنظر انداز کر رہے ہیںاور حکو مت کا ساتھ دے رہے ہیں۔کوئی اسمبلی میں رہ کر تو کوئی خاموش رہ کر تو کوئی زبانی مخالفت کرکے عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔اسلام غریبوں، یتیموں ،مفلسوں ،بے سہارائوں ، بزرگوں ، معذروں کو ذکواة دیکر احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچانے کا حکم دیتاہے حالانکہ اس حد تک کہاگیا یہ کہ اگر تمھارے جیب میں ایک دینار یا ایک روپیہ بھی موجود ہے تو دوسری طرف تمھاری پڑوس میں کسی کے ساتھ ایک وقت کی روٹی نہیں ہے تو تمھارا فرض بنتاہے غریب کا مدد کرنا جو حقوق العباد میں شمار ہو جاتاہے لیکن غریبوں ، یتیموں ،مفلسوں ،بے سہارائوں ، معذوروں کی مدد کے بجائے اسلامی جمہوریہ پاکستان انکے ہی ٹیکس سے ملک کو چلا رہے ہیں،کھربوں روپیہ ضائع کررہے ہیں۔4سال میں 8850ارب روپیہ صرف کرپشن میں ہضم کیے گئے ہیں مگر غریب ،یتیم مفلس لوگ روٹی کپڑا مکان کیلئے ترس رہے ہیں۔ہر طرف غیر اسلامی رسومات ،غیر اسلامی قوانین ،غیر اسلامی نظریہ کردار نے ملک اور ملک کی عوام کا بیڑہ تباہ کر دیا ۔نظام چلانے والے بھی بیکار ہیں تو نظام خود بھی بیکار ہے ۔ دنیاوی سوچ رکھنے سیاست دان و حکمران سے انصاف کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔
بہر حال میرا ایمان و یقین اور تجزیہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود ہ نظام کو مسترد کرتاہے میں سمجھتاہوں پاکستان اور پاکستانیوں کی تقدیر صرف اور اسلامی نظریاتی نظام میں ہے ۔جدید دور میںرہ کر جدید سہولیات سے فائدہ اُٹھاکر ترقی اور خوشحالی کے پاس جاسکتے ہیں۔مگر مکمل ترقی اور خوشحالی جدید دور کی سہولیات کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریاتی نظام ہو تو بات ہی کچھ اور ہے ۔اسلامی نظام میں عدل و انصاف مساوات قانون کی بالادستی ہے حق و سچ کی بات ہوئی ہے پاکستان میں فی الفور عقیدوںکو درست کیاجائے ۔فرقہ واریت سے نجات دلائی جائے ۔حکومت اور عوام کے درمیان موجود تفریق کو بلکل ختم کیا جائے۔
supreme court
انصاف و عدل کیا جائے ۔مساوات کے علاوہ کوئی فیصلہ قبول نہیں کیا جائے ۔غریبوں ،مفلسوں،یتیموں ،بے سہارائوں ،،معذوروں ، حقداروں کو امداد دیاجائے ۔اسلامی تبلیغ کو سرکاری سطح پرمدد کی جائے ۔ تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے ۔انگریزوں کے بجائے ایک ارب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو پر توجہ دیاجائے ۔تعلیم نظام کو بہتر سے بہتر اور آسان کیا جائے۔بچوں کو تعلیم کے ساتھ امداد دی جائے ۔عدالتوں ،جوڈیشنری نظام کو بدل کر اسلامی قاضیانہ اسلامی عدالتوں کو بحال کیا جائے پولیس سے لیکر ریلوے تک تمام اداروں کو عوامی احترام کے لیے خصوصی نظام بنایا جائے ۔عدل و انصاف سے معاشرے ترقی کرتے ہیں۔مساوات لائی جائے۔
وزیراعظم اور صدر کے گھروں کے روزانہ 10/10لاکھ روپیہ فضول خرچی کے بجائے یتیموں اور ضرورت مندوں میںتقسیم کیاجائے اور آخر میں پاکستان کی تقدیر صرف اور صرف اسلامی نظام سے بدل اور سنبھل سکتاہے ۔ ملک میں خوشحالی لائی جا سکتی ہے مگر اسلام کے ساتھ۔ آج کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظا م کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ آصف یٰسین لانگو جعفرآبادی