سیاست دانوں کو عموماً چالاک تصور کیا جاتا ہے لیکن میاں صاحب کا معاملہ اسکے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ سیاست میں پچیس سالہ تجربہ رکھنے والے میاں محمد نواز شریف بعض اوقات ایسے بیانات داغ دیتے ہیں کہ بھولے عوام حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔ آج کی دنیا میں جس جمہوریت کا بڑا چرچا ہے وہ بغیر سیاست کے قائم نہیں ہو سکتی جبکہ سیاست کیلئے ہوشیاری اشد ضروری ہے۔ زرداری صاحب نے اب تک جتنی بھی حکومت کی ہے اپنے ذہن سے کی ہے جبکہ میاں صاحب واقعی بہت بھولے ثابت ہوئے ہیں اور کئی بار دھوکا کھا کر بھی عہد و پیماں کر بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ سال نواب شاہ کا دورہ کرتے ہوئے میاں محمد نواز شریف خود یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ انتہائی بھولے بھالے ہیں اور ہوشیاری تو انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ پہلے تو ہم یہ سمجھتے رہے کہ شائد میاں صاحب اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سیاچن سے فوجوں کی یکطرفہ واپسی کا بیان دے کر اُنہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف بھولے ہیں بلکہ انتہائی سادہ بھی ہیں اور سیاست دان تو کہیں سے لگتے ہی نہیں۔ یہ تو بھلا ہو جنرل کیانی کا کہ اُنہوں نے بعد میں ایک ذمہ دارانہ بیان دے کر نہ صرف پوری پاکستانی قوم کے دل جیت لیئے بلکہ دنیا پر بھی یہ واضح کر دیا کہ پاکستان سیاچن کے مسئلے کا حل چاہتا ہے لیکن یکطرفہ فوج واپس نہیں بلائیگا۔
عوام بھولے ضرور ہوتے ہیں لیکن بیوقوف نہیں، یہی وجہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی طرف سے فوجوں کی یکطرفہ واپسی کے بیان کو پاکستان بھر میں کہیں بھی پذیرائی نہ مل سکی البتہ پڑوسی ملک بھارت میں اسے ضرور سراہا گیا۔ یہ بیان کسی عام سیاست دان کا نہیں بلکہ ایک ایسی پارٹی کے لیڈر کاہے جو خود کو قائداعظم کی مسلم لیگ کا حقیقی وارث سمجھتی ہے۔ قائداعظم کی روح تو اُس وقت بھی بہت تڑپی ہوگی جب میاں نواز شریف نے بھارت سے دوستی اور تعلقات کی حامی ایک تنظیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہندوئوں اور مسلمانوں کا ایک خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ کہنے کو تو میاں صاحب کے دل میں جو آیا وہ کہہ گئے لیکن پاکستان بھر میں اگر کسی نے اُن کی زبان پکڑی تو صرف جناب مجید نظامی ہیں۔ مجید نظامی ایک معتبر صحافی ہی نہیں بلکہ نظریہ پاکستان کے محافظ اعلیٰ بھی ہیں جبکہ میاں صاحب انہیں اپنا روحانی باپ بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ مجید نظامی صاحب ہی ہیں کہ جن کے مشورے پر میاں نواز شریف ایٹمی دھماکے کرنے پر مجبور ہوئے اور آج وہ جو فصل کاٹ رہے ہیں اسی ایٹمی دھماکوں کی مرہون منت ہے۔ بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ قادیانیوں کوپاکستان کا سرمایہ اور اپنا بھائی قرار دینے جیسے متنازعہ بیانات کی وجہ سے بھی نواز شریف تنقید کی زد میں رہے اور اب سیاچن سے فوجوں کی یکطرفہ واپسی کے بیان نے بھی محب وطن پاکستانیوں کو حیران کر دیا ہے۔
میاں صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا کا بلند ترین میدانِ جنگ سیاچن گلیشیر پاکستان اور بھارت دونوں کیلئے جغرافیائی، سیاسی اور فوجی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ یہ کراہ ارض کا دوسرا بڑا گلیشیر ہے جو نہ صرف اس خطے میں ماحول کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ یہ علاقہ پاکستان کیلئے واٹر ٹینک کی حیثیت رکھتا ہے جو ملک کے دریائوں میں پانی کی روانی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ قراقرم ہائی وے جو پاکستان اور چین کے درمیان واحد زمینی راستہ ہے سیاچن سے صرف چوہتر کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس وجہ سے یہ علاقہ پاکستان کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس راستے سے بھارت گھس کر دنیا کی بلند ترین چوٹی کے ٹو کے قریب پہنچ سکتا ہے جبکہ دوسری طرف قراقرم کو خطرہ ہے جو پاکستان اور چین کو آپس میں ملاتی ہے۔ بھارت کے لیئے یہ خطہ اس لئے اہم ہے کہ سیاچن گلیشیر کی برف پوش پہاڑیاں دنیا کا سب سے اونچا میدانِ جنگ بنی ہوئی ہیں اور اس علاقے میں بھارتی فوج کی موجودگی سے گلگت سے چینی علاقے تک پاکستان کا رابطہ نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان زمینی راستہ کٹ جانے کی وجہ سے بھارت نہ صرف اس خطے کا تھانیدار بن بیٹھے گا بلکہ دنیا کے اونچے میدانِ جنگ پر موجود ہونے کی وجہ سے اسے پاکستان اور چین پر برتری حاصل ہوگی ۔ دنیا کا سب سے اونچا فوجی محاذ ہونے کی وجہ سے اس علاقے پر چین اور امریکا کی بھی نظریں جمی ہوئی ہیں۔
سیاچن کا تنازعہ اُس وقت شروع ہوا جب 1984ء میں بھارت یہاں اپنی فوجیں اُتار کر ایک بڑے حصے پر قابض ہو گیا۔ اس وقت سے دونوں ممالک کی افواج کے درمیان اس محاذ پر جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ کارگل کی جنگ بھی سیاچن پر بھارت کے قبضے کے زمانے سے شروع ہونے والی لڑائی کا ایک حصہ تھی جبکہ 2003ء سے دونوں ملک جموں کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر سیز فائر پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ سیاچن کے علاقے میں سیز فائر پر عملدرآمد کے باوجود یہ برف پوش پہاڑیاں اب بھی دنیا کا سب سے اونچا میدانِ جنگ بنی ہوئی ہیں اور دونوں ملکوں کی افواج آمنے سامنے ہیں۔ اس محاذ پر باہمی لڑائی سے زیادہ سردی اور خراب موسم کے سبب ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ دونوں ممالک اپنے فوجی بجٹ کا ایک بڑا حصہ اس علاقے کی چوکی پر خرچ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان ملکوں کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دونوں ملک اس کوشش میں ہیں کہ اس معاملے پر کوئی پیش رفت ہو کیونکہ اس علاقے میں فوج کی موجودگی پیسے کا ضیاع ہے۔ سیاچن کے مسئلے پر دونوں ممالک کے مابین اب تک کئی ادوار ہو چکے ہیں لیکن تاحال اس مسئلے پر کوئی اہم پیشرفت نہ ہو سکی۔بھارتی فوج چونکہ سیاچن کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے اس وجہ سے وہ اس گلیشیر کی فوجی حد بندی چاہتی ہے جبکہ پاکستان اس علاقے پر کسی طور بھی بھارت کا قبضہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سیاچن کے جس علاقے پر قابض ہے وہ پاکستان کا حصہ ہے اور 1984ء سے قبل یہ علاقہ بھارتی فوج سے پوری طرح آزاد تھا لہٰذا بھارت کو چاہئے کہ وہ اپنی فوج کو قبضے سے قبل کی پوزیشن پر لے جائے۔
بھارت ایک طرف دنیا کے سامنے یہ مؤقف اختیار کرتا ہے کہ وہ سیاچن گلیشیر کو کوہِ امن بنانا چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف بھارتی فوج اس متنازعہ علاقے پر پاکستان سے مفاہمت کو خارج از امکان قرار دیتی ہے۔ سب سے اہم بات قیادت میں مسئلہ کے حل کی نیت ہوتی ہے لیکن بھارت کی میں نہ مانوں پالیسی ابھی تک ان مذاکرات کی ناکامی کا سبب بنی ہوئی ہے۔سیاچن مسئلے کے حل سے دونوں ملکوں کا فائدہ ہے کیونکہ دونوں ممالک نہ صرف اس محاذ پر اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ خرچ کرتے ہیں بلکہ اتنی اونچائی پر اپنے فوجیوں کو بھیجتے ہیں جہاں ان کا سب سے بڑا دشمن موسم ہوتا ہے۔دونوں ملکوں کو بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنا چاہئے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ماضی میں جتنے بھی مذاکرات ہوئے بھارت کی اندرونی سیاسی جماعتیں اور بری فوج رکاوٹ بنی رہی۔ بھارت کی خواہش ہے کہ اس نے سیاچن کے جس حصہ پر قبضہ کر رکھا ہے پاکستان اسے بھارت کا حصہ تسلیم کرے تبھی مستقل سرحد کا تعین ممکن ہو سکے گا جبکہ پاکستان کیلئے یہ ایک گھاٹے کا سودا ہے۔پاکستان کی طرف سے تمام تر کوششوں کے باوجود سیاچن کے مسئلہ کو حل کرنے کی کوششیں بھارت کے غیر لچکدار رویئے کے باعث تعطل کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال میں میاں محمد نواز شریف کی طرف سے فوجوں کی وآپسی میں پہل ایک انہونی بات لگتی ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھلا دو بار وزیراعظم بننے والے شخص نے اپنے دور میں فوج وآپس کیوں نہیں بلائی۔ میاں صاحب کے اس بیان کے بعد میں جناب مجید نظامی صاحب کے وہ تاثرات دھرانا چاہوں گا جو انہوں نے ایک تقریب کے دوران کہے تھے اللہ تعالیٰ نواز شریف کو عقل سلیم دے، انہوں نے اپنے ووٹ بینک کا بیڑہ غرق کر دیا۔ قائداعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے، نواز شریف کی طرف سے مسلمانوں اور ہندوئوں کا ایک خدا، ایک ثقافت کی باتوں نے مجھے افسردہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے میرا دل رو رہا ہے۔