وار آن ٹیرر میں ہم نے جو نقصانات اٹھائے ہیں ان کو پورا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ہم نے امریکہ کے مفادات کی خاطر پوری قوم کو جنگ کے جہنم میں دھکیل دیا ہے ۔جس کے نتیجے میں ہم نے اپنے ہی وفاداروں کی بلی چڑھا دی تاکہ ماضی اور حال کے حکمرانوں کے آقائوں کا خواب پورا ہوجائے اور ہماری شہ رگ کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل جائے۔یہ نام نہاداور بزدل کمانڈوآج بھی اپنے آپ کو کمانڈو کہتے نہیں تھکتا جس کانام پرویز مشرف ہے جو پاکستان میں اسلام کے علاوہ ننگ پن کا نظام لانا چاہتا تھا اور جس کو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت تھی۔ جس کی بہادری کایہ عالم ہے کہ اُس نے ساڑھے تین ہزار سے زیادہ مذہبی ذہنیت کی حامل ڈنڈوں سے لیس بچیوں پر فاسفورس بم برسا کر مغرب سے اپنی بہادری کا لوہا منوا یا تھا اوراب ایک مرتبہ پھر یہ منحوس کا لال مسجد کا فاتح پاکستان کا اقتدار حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔جس کے غیر آئنی اقدامات نے میرے وطن کوتباہی کیاندھے گڑھے میں پھینک دیا ہے۔جس نے یہود و نصارا کی غلامی کی خاطر ہمارا سب کچھ بر باد کر دیا ہے۔اس کے آقائوں نے پاکستان کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ہمارے اداروں اور حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ امریکی ہمارے گھر میں گھس کر دو گھنٹوں تک ہمارے فوجیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے رہے۔اور ہم ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ ہم نے مجبور ہو کر صرف اتنا کیا کہ امریکیوں اور نیٹو کی اپنے خطے سے سپلائی روکدی ۔جس سے امریکیوں کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگیئں ہیں۔امریکہ اس سپلائی کی بحالی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔تاہم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غیرتِ ملی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم امریکیوں سے رسمی تعلقات سے آگے نہ جائیں کیونکہ یہ ایساناگ ہے جو ہر وقت ہمیں ڈسنے پر آمادہ رہتا ہے۔اس نے ہمیشہ ہمارے خلوص کا نا جائز فائدہ اٹھا یا ہے اور ہمیشہ سے ہمارے دشمن کو مضبوط کرتا رہا ہے۔دوستی تو بظاہر اس نے ہم سے رکھیہوئی تھی اور مفادات ہمارے دشمن کے پورے کرتا رہا ہے۔ جب ساری قوم کا پیپلز پارٹی پر دبائو پڑا تو مجبور ہوکرپاکستان کے وزیر دفاع چوہدری احمد مختارنے اپنے ایک بیان میں کہہ دیا کہ نیٹو سپلائی بحال کرنے کے لئے فی الحال فیصلہ نہیں ہوا ہے۔لیکن اگر نیٹو سپلائی بحال بھی کی گئی تو اب وہ مفت بحال نہیں کی جائے گی۔ان آئل ٹینکروں اور ساز و سامان سے لدے ٹرالروں کا معاوضہ وصول کیا جائے گا۔کیونکہ بھاری ٹرالروں کی آمد و رفت سے ہماری سڑکوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اب امریکہ کو ہمارے مطالبات ماننا پڑیں گے۔احمد مختار کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ سے بات چیت میں پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کو سر فہرست رکھا جائے گا۔نیٹو کی سپلائی سے لے کر سرحدوں کے معاملات تک تمام جگہوں پر واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کو اولیت حاصل رہے گی۔ حکومت کا مقصد امریکہ سمیت تمام ممالک سے اچھے تعلقات رکھنا ہے لیکن اچھے تعلقات میں پاکستان اور اس کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔شکر ہے پرودگار عالم کا کہ امریکہ کے غلاموں کے منہ سے ایسے ا لفاظ تو نکلنا شروع ہوگئے ہیں!!مگر ان کے قول و فعل کے تضاد ات نے انہیں بے اعتبارہ بنا دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کہ قوم ان کے اندر کے جذبات کو بھی ان کی ماضی کی کار کردگی کے تناظر میں ہی دیکھتی ہے۔ مہمنڈ حملوں پرامریکہ نے اپنے طور پر نام نہاد تحقیقات کی ہیں جس میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی فوج کو ناصرف مورد الزام ٹہرایا گیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ حملہ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا تھا۔بلکہ غلط فہمی کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔کیا یہ بات سمجھ میں آنیوالی ہے کہ دو سے ڈھائی گھنٹے کاروائی جاری رہے اور دشمن کو یہ اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ دوست پر حملہ آور ہے یا اپنے مخالفین پر!!!گوروں کی ڈھٹائی تو ملاحظہ کیجئے کہ جرم کرنے کے باوجود کہتے ہیں کہ معافی نہیں مانگیں گے!!!اگر معافی مانگنے کو تم تیار نہیں تو ہم بھی تمہاری دوستی کے روادار نہیں۔مگر امریکہ سے این آر او کی بھیک میں ملے اقتدار کے حامل یہ لوگ کیا تہہ دل سے امریکہ کے خلاف کاروائی کرنے کو تیار ہوں گے؟؟؟ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان کیپٹن جان کربی نے پاکستان کے فوجی سپہ سالار اشفاق پرویز کیانی کواسلام آباد میں مہمندحملے کی تحقیقاتی رپورٹ فراہم کر دی ہے۔جس پر اسلام آباد میں بریفنگ دیتے ہوے امریکی نے پاکستان کے فوجی سربراہ کو بتایاکہ حملے کی نوعیت کیا تھی اور کن وجوہات کی بنا پر نیٹو اور امریکیوں نے سلالہ چیک پوسٹوں پر حملے کئے؟؟؟یہ خبر بھی امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی طرف سے نیٹو حملوں کے ضمن میں سامنے آئی ہے کہ نیٹو افسروں نے ان حملوں کے دوران رابطوں کے لئے 90 منٹ ضائع کردیئے تھے۔اخبار کا ماننا ہے کہ اگر جلد رابطہ کر لیا جاتا تو جانوں کا اتنا بڑا ضیاں نہیں ہوتا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی اے سی ون تھرٹی گن شپ طیارے پاکستان کی حدود میں دو میل تک پہنچ گئے تھے۔امریکی الزام کے تحت امریکیوں نے پاکستانی فوجیوں پر جوابی فائرنگ کی تھی۔اخبار نے رپورٹ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ سرحد پار آپریشن کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے امریکی اصولوں کی بھی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ بڑی عجییب منطق ہے اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے!!!کہ پاکستان کی حدود میں امریکی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی؟؟؟اس طرح کے حربے استعمال کر کے امریکہ پاکستان کو دبائو میں لینے کی پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دیتا ہے۔ تاکہ علاقے میں اپنی بالادستی قائم رکھ سکے اور پاکستان خاموش تماشائی بنا رہے۔ دوسری جانب ہیومن رائٹ انٹر نیشنل کمیشن نے مہمند ایجنسی میں سلالہ چیک پوسٹوں پر نیٹو کی بمباری سے متعلق یو ایس نیٹو تحقیقاتی کو باضابطہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔اور کہا ہے کہ مذکورہ رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں کی گئی ہے…..امریکیوں کو شرم آنی چاہئے کہ ان کے تخلیق کردہ ادارے تک ان کی تحقیقات کو مسترد کر رہے ہیں اور ہم پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ حملہ آور جنرل کی مرتب کر دہ رپورٹ کو مان لیں۔رپورٹ مرتب کرنے والے خود اس جارحیت کے مرتکب ہیں تو کیسے ان کی مرتب کردہ رپورٹ کو مانا جا سکتا ہے؟؟؟ اس ضمن میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی امریکہ اور نیٹوکے ساتھ نئی شرائط کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔پارلیمانی کمیٹی کا ماننا ہے کہ امریکہ کے ساتھ نئے تعلقات کی بنیاد اس بات پر مشروط کی جائے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ بھی ہندوستانی طرز کا سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی منتقلی کا معاہدہ کرے۔ تاکہ پاکستان توانائی کے خطر ناک بحران سے نکل سکے۔امریکہ پاکستان کو امریکی منڈیوں تک رسائی دے، امریکہ اور نیٹو پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سا لمیت کا مکمل احترام کریں۔برابری کی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقات استور کئے جائیںاور پاکستان کی سر زمین پر ڈرون حملے نہیں کئے جائیں گے۔پاکستان کی قومی اسمبلی جب کمیٹی کی سفارشات کوعملی شکل میں لانے کے لئے منظوری دیدیگی تو اس پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا۔ نیو یارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کے پا کستان کے ساتھ تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔جس کی وجہ سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے لئے امریکی امداد تیزی کے ساتھ کمی کی طرف بڑھ رہی ہے۔دہشت گردی کے خلاف اتحاد بھی اب بڑی تیزی سے کمی کیآرہی ہے۔جس کی بنا پر ڈرون حملے روکنے اور جاسوی کے نیٹ ورک میں کمی اور امریکی فوجیوں میں بھی کمی کرنا پڑے گی۔ایک سینئر امریکی کے مطابق پاکستان نے نائن الیون کے بعد کا باب بند کر دیا ہے۔ تاہم پاکستان بھی نیٹو سپلائی اُس وقت تک بحال نہیں کرے گا جب تک پاکستانکی پارلیمانی قومی دفاعی کمیٹی اطمنان نہ کر لے کہ اب امریکہ پاکستان کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں کی پاسداری کرے گا۔اس طرح کمیٹی کی سفاشات کی روشنی میںہی نیٹو سپلائی کا معاملہ حل کیا جاسکے گا۔ پروفیسر شبیر احمد خورشید03333001671