پاک روس تعلقات لازم کیوں

Pakistan - Russia

Pakistan – Russia

پاکستان اور ماضی کی سپرپاور روس کا دوستانہ تعلق کبھی خوشگوار نہیں رہا۔قیام پاکستان کے بعد دونوں سپرپاورز نے پاکستانی اور بھارتی سفیروں کو اپنے اپنے کیمپ میں شمولیت کا دعوت نامہ بھجوادیا۔ لیاقت علی خان مرد ملت اورخوشہ چین مقربین نے واشنگٹن کو ترجیح دی۔یوں روس خفا ہوگیا۔ ایوبی امریت کے دور میں بڈ ھیر کا ہوائی اڈہ امریکہ کے پاس تھاجہاں سے یو ٹو جہازوں اور سیاروں کا دستہ روس کی جاسوسی کرنے پر مامور تھا ۔ ماسکو پر جونہی یہ بھید کھلا تو وہ تلملا اٹھے ۔

سویت یونین کے صدا اٹھے۔ماسکو کے فوجی ترجمان نے وارننگ دی کہ اگر اڈے کو فوری طور پر خالی نہ کرایا گیا توسلام اباد کو سنگین نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ یوں ماسکو پاکستان کا اول نمبر کا متخالف ہوگیا۔ افغان رشیا جنگ میں فاٹا کے سرفروش جوانوںاور جہادی تنظیموں نے سفید اندھیوں کا رخ ہی بدل ڈالہ۔ امریکہ نے پاکستان کو لاڈلہ بچہ بنایا تو بھارت مخاصمت کا جھنڈا لہرا کرسوویت یونین کا ہم نوا بن گیا۔ ماسکوسوویت یونین تھا یا پھر بکھر جانیوالی والی سابق سپرپاور روس نے مسئلہ کشمیر پربھارتی نیتاوں کی بھرپور سرپرستی کی۔ مسئلہ کشمیر پر یو این او میں جونہی کشمیریوں کے حق میں کوئی عادلانہ قرارداد منظور ہوتی ماسکو سیکنڈوں میں ویٹو کے کلہاڑے سے انکی گردن کاٹ دیتا کردیا۔

کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان اگر امریکی جھانسے میں نہ اتے تو اج کشمیر ازاد ریاست کی شکل میں یا پھر پاکستانی صوبے کی شکل میں عالمی نقشے پر لہرا رہا ہوتا۔ ارسطو نے لکھا تھا جب کوئی قوم و ملک اپنی خارجی پالیسیوں اور باہمی وابستگیوں کی نوعیت کو بدلتا ہے۔کوئی ملک چاہے یا نہ چاہے پورے منظر میں باہمی تعلقات و روابط کا ایک نیا تناسب ناگزیر ہوتا ہے۔ ہمارے خطے کی نئی صورت گری تو نو دوگیارہ کے بعد ہی تبدیل ہونے کی جانب اشارے کئے جارہے تھے۔ ماہرین دانشور اور محققین کا کہنا ہے کہ اگر لیاقت علی خان واشنگٹن کے ساتھ روز اول سے ہاتھ نہ ملاتے تو اج امریکی ہمارے گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی سے لطف اندوز نہ ہورہے ہوتے۔

روس و پاکستان کے نئے تعلقات اسی سمت میں اشارے کررہے تھے۔ صدر مملکت زرداری کوکریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ اس نے مہارت صدارت اور بصارت کے بل بوتے پر ماسکو کے ساتھ دوستی کا ہاتھ تو ملالیا۔ 2 اکتوبر 2012پاکستانی تاریخ کے روشن ابواب میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا کیونکہ روسی صدر ولادی میر پوٹن نے یہاں قدم رنجہ فرمانا تھا مگر وہ نہیں اپائے۔ روسی صدر کی نمائندگی رشین وزیرخارجہ نے کی۔پاک فوج کے سرخیل کیانی نے بھی حال ہی میں ماسکو کا دورہ کیا ہے۔روسی فارن منسٹر کا پاکستان انا ارمی چیف کا دورہ خیر سگالی خوش ائند ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ پاک روس روابط اور باہمی انڈرسٹینڈنگ خطے میں امن کی ضامن بن سکتی ہے۔

گارڈین میگزین نے صورتحال کی تشریح یوں کی ہے ماضی میں دونوں کے مابین تلخی رنجش ناخوشگواری ٹھاٹھیں مارتی رہی مگر خطے میں الم نشرح تبدیلیوں کے اثار دیکھر ماسکو اسلام اباد کے ارباب اختیار نے اپنے اپنے رویوں پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ۔ صدر مملکت نے اسی سوچ کے تحت روس کا ایک بار سے زائد مرتبہ دورہ کیا۔تیسری مرتبہ ماسکو کے منتری پوٹن 2 اکتوبر کو اسلام اباد کا دور کرنا تھا جو عین وقت پر موخر ہوگیا۔منسوخی کی وجوہات کا زائچہ تیار کرنا لازم و ملزوم ہیں۔ دورہ پوٹن کے دوران اسلام اباد میں ہونے والی 4 رکنی کانفرنس >روس پاکستان تاجکستان افغانستان منعقد ہونا تھی امریکہ اور بھارت کو منظور نہ تھا کہ کانفرنس کامیاب ہو۔دونوں نے پوٹن کے دورہ پاکستان کو ناکام بنانے کی خاطر ایڑی چوٹیکا زور لگایا ۔

Vladimir Putin

Vladimir Putin

انکل سام کو طرفین کے مابین پروان چڑھنے والی مفاہمت قبول نہ تھی اسی تناظر میں روسی صدر پوٹن کے دورہ اسلام اباد کی راہ میں کئی رخنے ڈالنے کی شاطری کی۔ پیوٹن نے اسی دوران تاجکستان جانا تھا وہ دورہ منسوخ نہیں ہوا۔ نو دو گیارہ کے فوری بعد خطے میں تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا تھا پچھلے 5 سالوں میں واضح اور روز روشن تبدیلوں کے بادل برسنے لگے۔ چین اور روس کے درمیان اختلافات کا خاتمہ اہم ترین تبدیلی تھی۔دونوں نے علاقے میں امریکی اثر و نفوز کو تہہ خاک کرنے کا عہد کیا جس کے ثمرات کا اندازہ افغانستان میں امریکی فورسز کی بننے والی درگت سے لگایا جاسکتا ہے۔ بھارت نے بل کلنٹن دور میں روسی کیمپ کو خدا حافظ کہہ کر امریکہ کو اقا و ملجی مان لیا۔ زرداری پاک روس باہمی اشتراک عمل اور دوستانہ سفارتی تعلقات کے دوستانہ اجرا و احیا کے کریڈٹ کے حق دار ہیں۔ روس پاکستان میں دو گیس پائپ لائنوں کی تعمیر میں دلچسپی رکھتا ہے۔ان میں سے پہلی ترکمانستان افغانستان پاکستان اور انڈیا شامل ہیں۔دوسری پاک ایران پائپ لائن ہے۔

ماسکو کی خواہش ہے کہ انکی دنیا کی سب سے بڑی ائل کمپنیGAZOPRM پاک ایران پائپ لائن کا ٹھیکہ دیا جائے۔روسی صدر کی امد سے پاکستان کو کئی فوائد حاصل ہونے کی توقع تھی۔کانفرنس کے انعقاد سے عالمی برادری کو پیغام ملتا کہ پاکستان ہی تنازع افغانستان کے خاتمے اور امریکی فورسز کی واپسی اور طالبان سے ڈائیلاگ کے لئے پاکستان ہی فریق اول ہے۔پاکستان کو تجارتی عسکری فوائد حاصل ہونے کی توقع تھی۔

روسی صدر کا دورہ ایک ایسے اہم ترین ایونٹ uno کے اجلاس کے فوری بعد تھا اور یہ وہی اجلاس ہے جس میںپاکستانی صدر و وزیراعظم شریک تھے کہ دورہ منسوخ ہوگیا۔ قرین قیاس تو یہ بھی ہے گورے انگریزوں کی باقیات جوہماری ایسٹبلشمنٹ میں طاقتور عہدوں پر فائز ہیں گھن اتی ہے ایسے طبقہ اشراف سے جو پے رول پر مغربی ایجنسیوں کے الہ کار بنے ہوئے ہیں۔ دورہ پوٹن کو ملتوی کروانے میں اس کلاس کی اداکاری اور بے ضمیری شامل ہوسکتی ہے جسکی تحقیق و تفتیش لازم ہے۔ زرداری صاحب کے پاس موقع ہے کہ وہ کوئی تاریخ ساز منصوبے کا نہ صرف اغاز کریں بلکہ پی پی پی کے ماتھے پر کندن ایٹمی صلاحیت ائین پاکستان میزائل پروگرام کے ساتھ ساتھ پاک روس دوستی کا لوگو بھی لکھا ہوا ہو۔ پاکستان کے پالیسی میکرز کو چاہیے کہ وہ خطے میں امریکی بالادستی کے بت کو پاش پاش کرنے اور جنگ سے جان چھڑوانے کا سبب بن جائے۔
امریکی بالادستی کے تصور کو چکنا چور کرنے واحد مجرب نسخہ پوٹن کا دورہ پاکستان ہے۔ پاکستان سمیت خطے کی تمام ریاستوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ امریکی بالادستی کل کلاں بھارتی بالا دستی کی شکل میں رقص کررہی ہوگی۔ امید افزا بات تو یہ ہے کہ دورہ پوٹن عارضی طور پر ملتوی ہوا ہے نہ کہ ہمیشہ کے لئے منسوخ۔جنرل کیانی اکتوبر میں روس کے دورے پر جارہے ہیں۔

حکومتی بانکوں کو چاہیے کہ اجلاس کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے تو درست وگرنہ پاکستان کو جرات مندانہ اقدامات کرکے پاک روس دوستی کو غتربود کرنے کے لئے سرگرم ہاتھوں کو دبوچ لینا چاہیے۔ حضرت عثمان کا قول ہے کہ ظالموں اور فاسقوں کا ساتھ نہ دو۔ کینہ حسد بغض اقوام کو کھوکھلا کردیتے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان کو چاہیے کہ وہ حضرت عثمان کے قول کی روشنی میں امریکی رزیلوں ظالموں اور فاسقووں کو ڈنکے کی چوٹ پر چھوڑ کر چین ایران افغانستان روس اور سنٹرل ایشیا کے ساتھ تجارتی عسکری تعلقات کو مستحکم اور وسیع بنائے۔قول کا دوسرا حصہ بھارت کے لئے مختص ہے۔ہمارے پڑوسی محترم پالیسی سازوں کا اولین فریضہ ہے کہ وہ پاک روس دوستی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے وربہ حشر وہی ہوگا جسکا اظہار تیسرے خلیفتہ مسلمین حضرت عثمان غنی نے اپنے قول میں کیا ہے۔

تحریر: رؤف عامر پاپا بریار