پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری کلچر پیدا کئے بغیر حقیقی جمہوریت کا حصول ناممکن ہے۔ موروثی سیاست ختم کئے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا ہماری اسی آپس کی لڑائی کی وجہ سے بھارت نے 62 ڈیمز بنا لیے ہیں ہم کالاباغ ڈیم بھی تعمیر نہیں کر سکے۔ بھارت پاکستانی حدود میں بہنے والے دریائوں پر ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے فیصلے اسلام آباد کی بجائے کہیں اور ہوتے ہیں پاکستان عالمی سازشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔
تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں متحد ہو کر ملک کے خلاف عالمی سازشوں کو ناکام بنائیں اور قومی قیادت سلامتی کے اداروں کا تحفظ یقینی بنائے۔ عالمی طاقتیں ملکی اداروں کو کمزور کرنا چاہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ آئے روز ملک کے کسی نہ کسی شہر میں کوئی نہ کوئی تخریبی کاروائی ہوتی رہتی ہے اور جبکہ کراچی میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات سمیت اس وقت ملک میں پھیلی ہوئی بے یقینی اور خوف کی فضاء کو کنٹرول کرنا حکومت کاکام ہے مگر کیا مجال ہے کہ کہ حکومت نے سوائے بیان بازی کے کوئی عملی اقدام اٹھایا ہو اور اب حکمرانوں کی بے حسی اور عوام کی بے بسی کی انتہا ہو چکی ہے جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے کیونکہ 40 خاندانوں نے سیاست اور اقتدار کو یرغمال بنا رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران خوشحال اور ملک بدحال ہوتا جا رہا ہے اور اب وقت آچکا ہے کہ پاکستان کے استحکام، سلامتی اور ترقی کیلئے ملت کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور آئندہ الیکشن میں ذاتی اور گروہی مفادات سے بالا تر ہوکر اپنی نسلوں کے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا ہے تاکہ عوامی امنگوں کی ترجمان حکومت معرض وجود میں آسکے عوام الیکشن میں بھر پور دلچسپی کا مظاہرہ کریں۔
جبکہ قومی اداروں کو بھی اپنی اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے ملکی ترقی کے لیے کھلے دل سے کام کرنا چاہیے اور ملک جن حالات سے گزر رہاہے وہ اس امر کا تقاضا کرتاہے تمام ادارے ایک دوسرے کی حدود کا احترام کریں اور ملک کو ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اپنا مثبت کردارادا کریں ۔ عدلیہ اور فوج دونوں د یگر آئینی اداروں کی طرح قابل احترام ہیں جہاں تک چیف جسٹس اور آرمی چیف کے بیانات کا تعلق ہے تو دونوں شخصیات نے جس نیت اور جس جذبے کے تحت یہ بیانا ت دیئے بدقسمتی سے شاید اُن کو اس سپرٹ اور سوچ سے نہیں لیا گیا دونوں بڑوں نے پاکستان اور اس کے استحکام کی بات کی اور واضح کیا کہ آئین نے ہر ادارہ کے لیے جو دائرہ کار دیا ہے ہر ادارہ اس دائرے میں رہتے ہوئے اپنے زامہ داریاں نبھائے اس وقت پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے اور اس وقت اداروں کے مابین ٹکراؤ کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں اور ہم سب کو اس میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا ۔
عدلیہ بھی قابل احترام ہے اور فوج بھی ہماری اپنی ہے اور فوج نے اس سرزمین کی خاطر جو قربانیاں دی ہیںانہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا ان سب حقیقتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مسیحائی کے نام پر جو عوام کے ساتھ کھیل کھیل جارہا ہے وہ بھی انتہائی خطرناک ہے گذشتہ جمعرات کوڈاکٹروں کی غفلت سے بی کام کی طالبہ انعم وفات پا گئی اور مرحوم انعم کے والد قمرالزمان کے مطابق سرجی میڈہسپتال کے ڈاکٹروں نے پیسے کے لالچ میں غلط آپریشن کردیا جسکی وجہ سے انعم موت کے منہ میں چلی گئی۔
کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ جن پر خدا کے بعد انسان کو یقین ہوتا ہے کہ انکے دکھوں کا مداوا کریں گے اور انکے لیے وہ مسیحا ہیں مگر پیسے کے لالچ نے ان مسیحاہوں کی انکھوں پر ہوس کی پٹیاں بندھ چکی ہیں اور اکثر سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کا انتہائی توہین آمیز رویہ دیکھ کر کمزور دل والے حضرات سرکاری ہسپتالوں کا رخ ہی نہیں کرتے اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں جاکر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہاں پر صرف پیسہ کمانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے وزیر اعلی پنجاب اس طرف بھی توجہ دیں ورنہ حالات حکومتی کنٹرول سے بھی باہر ہو گئے تو پھر کسی کا بھی بچنا ممکن نہیں رہے گا۔