پاکستان کرکٹ ٹیم جب بھی انگلینڈ کھیلنے کے لیئے گئی ہے کوئی نہ کوئی تناز عہ ضرور کھڑا ہوا ہے۔ کبھی بال ٹیمپرینگ کا تو کبھی اسپاٹ فیکسینگ کا،لیکن ہم نے اسکو ہمیشہ انگلش میڈیا کی سازش قرار دیتے ہوئے اپنے کھلاڑیوں کی حمائیت کی ،حوصلہ بڑھایا ،عزت اور پیار دیا،کیونکہ پاکستانی ہونے کے ناتے حب الوطنی کا جو جذبہ ہم سب رکھتے ہیں وہی جذبہ ہر وہ پاکستانی کھلاڑی رکھتا ہے جو بھی پاکستان کے لیئے کھیلتا ہے، میرا ذاتی عقیدہ تو یہ ہے کہ کوئی بھی سچا پاکستانی کبھی بھی اور کسی بھی میدان میں چاہے وہ کھیل کا ہو یا پھرجنگ کا کسی صورت میں بھی اپنے ملک کی عزت اور وقار کا سودا نہیں کرسکتا ۔اس لیئے جب انگلینڈ ٹیسٹ کے دوران پاکستانی ٹیم کے تین کھلاڑیوں پر اسپاٹ فیکسینگ کا الزام لگا تو کوئی حیرانگی نہیں ہوئی ،کیونکہ ہمیں گوروں سے ایسی ہی تو قع تھی ،کھلاڑیوں کو انڈر پریشیر رکھنے کے لیئے وہ ہمیشہ سے ہی ایسی بیہودہ حرکات کرنے میں مشہور ہیں۔ اس لیئے یہ ایک عام سی بات لگی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات اتنا زور پکڑگئی کہ پوری دنیا کے میڈیا پر پاکستان کے ان تینوں کھلاڑیوں کے اسپاٹ فیکسینگ کے چرچے ہونے لگے سبھی نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی جسکے دل میں جو آیا وہ بول دیا یا پھر لکھ دیا ،اب بات عامر ،آصف ، یا سلمان بٹ کی نہیں تھی بلکہ پورے پاکستان کی عزت داوء پر لگی ہوئی تھی۔اُس وقت پاکستانی قوم جس اذیت سے گزر رہی تھی وہ شاید لفظوں میں بیاں نہیں کیا جا سکتا ،اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی پاکستانی کرکٹ شائقین آئی۔سی۔سی، انگلش میڈیا کو قصور وار کہتے رہے اور اپنے کھلاڑیوں کو دودھ سے دُھلا سمجھا۔ لیکن حقیقت کچھ اور تھی ، ہمارے تینوں کھلاڑی ، آئی ۔سی۔ سی، سکاٹ لینڈیارڈ پولیس اور انگلش میڈیا کے سامنے بے بس نظر آئے،پی۔سی ۔بی نے تو پہلے ہی اس معاملے سے اپنے ہاتھ کھڑے کر لیئے تھے، البتہ ہمارے پڑوسی ملک انڈیاکے کر کٹ بورڈ نے موقع کا بھرپور فا ئدہ اٹھایا اور جتنی توہمات لگانی تھیں اُس میں کوئی کسر نہ چھوری۔ بلاآخر تینوں کھلاڑیوں پر الزامات ثابت ہو ہی گئے پر ہمارے کھلاڑیوں نے اپنے اپر لگے الزامات کو اپنے خلاف سازش قراردیااور خود کو بیگناہ بتاتے رہے پرکسی نے ان کی ایک نہ سُنی آخر کار کھلاڑیوں کو سزائیں ہوئیںاور اُ ن پر کسی بھی طرح کی کرکٹ کھیلنے کی پابندی عائد کردی گئی۔پاکستانی کرکٹ شائقین جانتے تھے کہ ہما ر ا کرکٹ بورڈ اتننی طاقت نہیں رکھتا کہ کھلاڑیوں کی کوئی مدد کر سکے ، اس لیئے کرکٹ شائقین نے بھی چپ سادھ لی اوردل ہی دل میں ،آئی ۔سی۔ سی،انگلش میڈیا اور پاکستان کرکٹ بورڈکو کوستے ضروررہے۔دُنیانے چاہے جو سمجھا ہو۔لیکن پاکستانی کرکٹ شا ئقین کو یہ یقین تھا کہ ہمارے کھلاڑی بے قصور ہیں ۔چند روز قبل محمد عامر نے اپنے اُپر لگے اسپاٹ فیکسینگ کے الزامات کو قبول کرتے ہوئے پاکستانی کرکٹ شائقین پر ایک طرح کا خودکش حملہ کیاہے پاکستانی کرکٹ شائقین کا اپنے کھلاڑیوں کے بے قصور ہونے کا جو بھرم تھا وہ بھی ٹوٹ گیا، پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ،پوری دنیا میں پاکستان کا نام بدنام ہوا۔عامر کو یہ فیصلہ کرنے سے پہلے اتنا تو سوچ لینا چاہیے تھا کہ جس ملک نے اُس کو اتنا رتبہ دیا، شہرت دی اور دولت دی، اُس کے اس فیصلے سے پاکستان کی دنیا میں کتنی رسوائی ہوگی، عامر نے پہلے بھی اپنے ذاتی مفاد کو عزیز سمجھا او ر گھناوناکھیل ،کھیل کر پوری قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی۔ جبکہ اب تمام الزامات کو قبول کرکے بھی اپنے ذاتی مفادات کو ہی ترجیہی دی۔پاکستان ایک تو پہلے ہی دہشت گردی جیسی لعنت کی وجہ سے دنیا میں بدنام ہے اب رہی سہی کسر ہمارے کھلاڑیوں نے نکال دی ہے۔کچھ دن پہلے ایک ٹی وی چینل پر ہمارے معروف سیاستدان شیخ رشید کی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا اُن کی ایک بات مجھے تو بہت اچھی لگی کہ ہماری انتظامیہ نے آج تک جتنے بھی دہشت گرد پکڑے ہیں ان میںسے اگر کسی ایک کو بھی اگر سرعام پھانسی دی جاتی تو ہزاروں اور بننے والے دہشت گرد اس سے سبق سیکھتے اور ایسا راستہ اختیار کرنے سے بعض رہتے، لیکن یہاں اگر کبھی کوئی دہشت گرد پکڑا بھی جاتا ہے توکچھ مہینوں بعد اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر وہی سرعام دندانتا پھرتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی جرم کا سدِباب کرنے کے لیئے اس جرم کے کرنے والے مجرم کو نشانِ عبرت بنا نا چا ہیے۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام میں یہ جائز ہے کہ اگر کوئی چوری کرے تو اُ س کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں،سعودی عرب میں آج بھی اسی پر عمل ہو رہا ہے۔اصل میں یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اب ،عامر ، آصف ، اور بٹ کو جو سزائیں آی ۔سی ۔سی نے دی ہیں یا مزید کوئی کاروائی ہونا ابھی باقی ہے وہ سب اپنی جگہ پرہیں ۔ کیوں کہ عامر نے خود اپنا جرم قبول کر لیا ہے ، اس لیئے اب تینوں کرکٹر پاکستان کے بھی مجرم ہیں پاکستان میں بھی اُن کے لیئے سخت سزائیں تجویز کی جانی چاہیں۔ہم انگلش میڈیا کے بھی شکر گزار ہیں جن کی وجہ سے ہماری آنکھوں سے جھوٹ کا پردہ ہٹا اورسچائی سامنے آئی، اس بات کا بھی سبق ملا کے کسی اور کے اُپر الزام لگانے سے پہلے ایک بار اپنے گر یباں میں جھانک کر ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ اب ہماری چیف جسٹس آف پاکستان سے یہ گزارش ہے کہ وہ اس سارے واقع کا از خود نوٹس لیں اور ان تینوں کھلاڑیوں کے لیئے ایسی سزائیں تجویز کر یں جو ہماری آنے والی نسلوں کے لئیے ایک سبق ہو۔ تاکہ پھر کوئی اور ایسی گھناونی حرکت نہ کر سکے ۔ہمارے ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس وقت انتہائی سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ بے حِسی کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان میں ایک کھلاڑی کاغذ کے چند ٹُکڑوں کے لیئے اپنا کھیل بیچ رہا ہے تو وہیںایک بدکار سیاستددان اپنی ہوس پوری کرنے کے لیئے اپنا ملک بیچ رہاہے۔حب الوطنی کا جذبہ رکھنے والے ہم سب پاکستانیوں کا یہ فرض ہے کہ ہمیں ایسی کالی بھیڑوں سے خبردار رہنا چاہیے اور کسی کو یہ جرات نہ ہو کہ کوئی اپنے ذاتی مفادات کے لیئے پاکستان کے نام کو بدنام کرے، وہ ہمارے حکمران ،سیاستددان ، بیورو کریٹس ہوں، یا پھر عامر، آصف اور بٹ صاحب ہی کیوںنہ ہوں۔ تحریر:کفایت حسین(یو۔اے۔ای )