اکثردوست میرے متعلق یہ جانتے ہیںکہ میں پچھلے بارہ برس سے اپنی ملازمت کے سلسلے میںدبئی میںمقیم ہوں جب 2000ء میں پہلی بار دبئی آیا اُس وقت کے دبئی اور آج کے دبئی میں زمین و آسمان کا فرق ہے یہاں ان دس سے بارہ برسوں میں جو لازوال ترقی ہوئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے کیونکہ 2000ء دبئی کے مشہور شیخ زید روڈ پر چند اونچی اونچی بلڈنگز کے علاوہ ہر طرف صحرا ہی صحرا نظر آتا تھا اور پھر انہی صحرائوں میں اتنی جلدی اتنی ترقی ہونا یقینا کسی معجزے سے کم نہیںہے۔ جس طرح کہانی اللہ دین میں اللہ دین کو ایک جادو کا چراغ ملتا ہے جس کے رگڑتے ہی ایک جن حاضر ہوجاتا ہے جسے وہ حکم دیتا ہے کہ میرے لیے راتوں رات محل بنا دوتو وہ جن اللہ دین کے لیے راتوں رات محل کھڑ ا کر دیتا ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ دبئی کی اس شاندار اورتیز رفتار ترقی کے پیچھے بھی کسی جادو کے چراغ والے جن کاہی ہاتھ ہے اور دبئی کی یہ شاندار ترقی اس بات کی د لییل ہے کہ مخلص ،بے باک اور ایماندار قیادت ریت کے ٹیلوں کو بھی سونے کے پہاڑوں میں بدل سکتی ہے۔
جب میں پاکستان سے دبئی آیا تھا تو اس وقت پاکستان کے حالا ت اب سے بہت بہتر تھے مہنگائی زیادہ نہیں تھی اور نہ ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب تھا لیکن آخری بار جب میں2008 ء میں پاکستان واپس گیا تو وہ صورتحال میرے لیے کسی ڈروانے خواب سے کم نہ تھی کیونکہ اس وقت نہ پینے کے لیے پانی تھا نہ بجلی تھی اور پٹرول تو جیسے نایاب ہو چکا تھا اور مہنگائی اتنی تھی کہ دبئی کے درہم روپوں میں بدلنے کے بعد بھی وہاں پر خرچہ کرنا میرے لیے مشکل ہوگیا تھا یہ ساری صورتحال دیکھ کر میں بہت پریشان ہوا کیونکہ پاکستان میں وسائل دن بدن کم ہوتے جارہے تھے اور مسائل حد سے تجاوز کرتے جارہے تھے لیکن ان مسائل سے بھی زیاہ بھیانک اور تکلیف دہ بات میرے لیے پاکستان کے ماتھے پر لگنے والا دہشت گردی کا وہ بد نما داغ ہے جس نے پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کو ذلیل و خوار کر دیاہے۔
loadsheding protest
اگر آج پاکستان کے عوام پاکستان میں رہتے ہوئے گیس ،بجلی ،پانی اور مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں تو وہیں اپنے پیارے ملک سے دور رہنے والے پاکستانی پردیس میں رہتے ہوئے پاکستان کے اپر لگنے والے دہشت گری کے الزام کی بھاری قیمت چکارہے ہیں جہاں ہر پاکستانی کو دہشت گر د سمجھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ غیرامتیازی برتائو کیا جاتاہے۔ دیار غیر میںرہنے والے پاکستانیوں کو آج کس طرح ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے اسکی ایک مثال جو خود میرے ساتھ پیش آئی ہے میں آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کر نے جا رہا ہوں۔ میں تقریباً پچھلے آٹھ برسوں سے دبئی کی ایک انٹر نیشنل کمپنی (The Red Carpet) میں as a sales managerکام کررہا ہوں اور ہماری یہ کمپنی دبئی کے علاوہ بھی اپنے پراڈکٹ کی تشہیرکے لیے اکثر مختلف ممالک میں نما ئشوں کا اہتمام کرتی رہتی ہے جس کے لیے کمپنی اپنے تجربہ کار لوگو ں کا انتخاب کرتی ہے اور تقریباً کمپنی میںکام کرنے والے ہر ورکر کی یہopportunity حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے لیکن ہر ورکر کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی سب کی طرح میری بھی یہ خواہش تھی کہ میںبھی کمپنی کی طرف سے غیر ملکی دوروں پر جائوں اور میری یہ خواہش تب سے تھی جب سے میںنے یہ کمپنی جوائن کی تھی لیکن ایک لمبے انتظار کے بعد آخر کار میری محنت رنگ لائی اور مجھے یہ چانس مل گیا مجھ سمیت کمپنی کے چار اور لوگ بھی اس ٹو ر کے لیے منتخب ہوئے جن میں دو سری لنکن اور دو بنگلادیشی تھے۔ کمپنی کی طرف سے ہم نے 24جولائی کو انڈونیشاء کی ایک انٹر نیشنل نمائش میںشرکت کرناتھی اور ویزے کے حصول کے لیے میںاور میرے چار اور ساتھی 11جولائی 2012ء کو صبح گیارے بجے دبئی میں انڈنیشاء قونصلیٹ پہنچے ہم سب کے ہاتھ میں اپنا اپنا پاسپورٹ اور دوسر ے ضروی کاغذات تھے۔
جب لائن میں لگے تو میں سب سے آگے تھا میرے پیچھے سری لنکن اور پھر بنگالی تھے جب انڈونیشاء کے آفیسر نے میرا پاکستانی پاسپورٹ دیکھا تو مجھے پیچھے جانے کو کہا میں نے وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ پاکستانیوں کے لیے طریقہ کار مختلف ہے لہذا میں پیچھے ہٹ گیا میرے پیچھے کھڑے میرے سری لنکن اور بنگالی ساتھیوں کے اس نے پاسپورٹ اور دوسرے کاغذات وغیرہ چیک کیئے اور انہیں چار دن کے بعد ویزے لے جانے کو کہا جب وہ چاروں فارغ ہو گئے تو میں پھر آگے بڑھا اور اپنا پاسپور ٹ اور دوسرے ضروری کاغذات آفیسر کے حوالے کردیئے پھر اس نے پہلے اچھی طرح سے میر ا پاسپورٹ چیک کیا اور پھر تما م کاغذات میںدیکھ رہا تھا کہ جتنے ٹائم میں اس نے میرے چاروں ساتھیوں کے پیپرز چیک کیئے تھے اُس سے بھی زیادہ ٹائم لگا کر وہ میرے کاغذات چیک کررہا تھا مجھے اند ر ہی اندر بے چینی سی ہورہی تھی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے پھر آخر کار اس نے میرا پاسپور ٹ ایک رسید کے ساتھ مجھے واپس دے دیا اور یہ کہا کہ آپ انتظار کریں تین سے چار دن بعد ہم آپ کو ایک کال کریں گئے اور ایک applicationنمبر دیں گے وہ نمبر آپ انڈونیشاء کی اس کمپنی کو دیں گے جو آپ کو بلا رہی ہے اور وہ کمپنی انڈونیشاء سے approvalحاصل کرے گی اور وہ approval لے کر پھر آپ ہمارے پاس آؤ گے تب آپکو انڈونیشاء کا ویزہ جاری کیا جائے گا۔
passport
اس کی اتنی باتیں سُننے کے بعد میںن سوال کیا کہ میں بھی ان چار لوگوں کے ساتھ ہوں ہم ایک ہی کمپنی میںکام کرتے ہیںاور سب ایک ہی جگہ پر جارہے ہیںتو پھر میرے لیے یہ مختلف طریقہ کار کیوں ؟ تب اس نے بڑی بے رخی سے جواب دیا کیونکہ پاکستانیوں کے لیے ہمارا یہی طریقہ کارہے میں بے بس تھا کچھ نہیںکرسکتا تھا لیکن اند ر ہی اندر مجھے ذلت اور شرمندگی محسوس ہورہی تھی کہ میرے سامنے بنگلہ دیشیوں کو بھی ویزہ مل گیا سری لنکنزکو بھی لیکن مجھے ویزانہیں دیاگیا کیونکہ میں پاکستانی تھا اور میرا پاکستانی پاسپورٹ تھا میرے بنگالی اور سری لنکن ساتھی میری طرف ایسے دیکھ رہے تھے کہ جیسے میںکوئی دہشت گرد ہوں مجھے دکھ ہو رہا تھا۔ ہمارے حکمرانوں کی بنائی ہوئی اُن خارجہ پالیسوں پر جن سے پردیس میں رہنے والے پاکستانیوں کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور ایسے حکمرانوں سے اچھائی کی امید رکھی بھی کیسے جاسکتی ہے جو پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں کو انکے حقوق نہیںدے سکتے وہ پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کے حقوق کا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں ہر محب وطن پاکستانی کو اب یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جب تک ہماے اوپر نااہل اور جعلی ڈگریوں والے حکمران حکمرانی کرتے رہیں گے۔
departure international
تب تک ہم اسی طرح پاکستان اور پاکستان سے باہر بے عزت اور رسوا ہوتے رہیں گے کبھی ائیر پورٹس پر سکیورٹی نے نام پر ننگے ہوکر تو کبھی پاکستانی ہونے پر اور پاکستانی پاسپورٹ رکھنے پر۔ ۔۔لیکن بہت جلد ہمیں ہمارا کھویا ہوا مقام واپس ملے گا کیونکہ مایوسی گناہ ہے اور ہم پُر اُمید ہیں پھر حا لات جیسے بھی ہوں پاکستان میرا ہے اور مجھے میرے پاکستانی ہونے پر فخر ہے اگر کسی کی نظر میں پاکستانی ہونا جرم ہے توپھر یہ جرم سہی ،،،،،، ہاں ! میں پاکستانی ہوں۔ بس یہی پہچان تھی ہر پہچان سے پہلے بھی ۔ پاکستان کا شہر ی تھا میں پاکستان سے پہلے بھی۔ تحریر: کفایت حسین کھوکھر