پرندے کی فریاد
Posted on July 20, 2012 By Adeel Webmaster علامہ محمد اقبال
parinde ki fariyaad
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوئوں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت ، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں!
کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں ، میں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اس قید کا الہی! دکھڑا کسے سنائوں
ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جائوں
جب سے چمن چھٹا ہے ، یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے ، او قید کرنے والے!
میں بے زباں ہوں قیدی ، تو چھوڑ کر دعا لے
علامہ محمد اقبال