سپریم کورٹ(جیوڈیسک)چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے کسی پارٹی کا نہیں۔ ماضی میں صدر نے آئی جے آئی کی حمایت کی۔ صدر کی حمایت ان کے حلف کی نفی تھا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اصغر خان کیس کی سماعت کی۔ سیکریٹری ایوان صدر ملک آصف حیات نے عدالت میں جواب داخل کرا دیا۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ ستمبر دو ہزار آٹھ سے ایوان صدر میں کوئی سیاسی سیل کام نہیں کر رہا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے استفسار کیا کیا ستمبر دو ہزار آٹھ سے پہلے کوئی سیاسی سیل تھا؟۔ ایوان صدر کے سیکرٹیری ملک آصف حیات کا کہنا تھا کہ انہیں علم نہیں۔ صدرزرداری ستمبر دو ہزار آٹھ میں آئے ، جسٹس خلجی عارف حسین نے سوال کیا۔ نوٹس دیا تھا کہ 1990 میں سیاسی سیل تھا یا نہیں؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے صدر کے حلف میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ بلا امتیاز برتا کریں گے۔ ایوان صدر کے سیکرٹیری نے کہا ہمارے پاس جو کچھ ریکارڈ میں تھا پیش کر دیا۔ ملٹری سیکریٹری واپس آجائیں تو نوے کی دہائی کی مزید معلومات مل سکتی ہیں۔
جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ نے کہا اسلم بیگ حامی ہیں کہ انتخابی عمل کو آلودہ کرنے سے روکنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا اسلم بیگ پہلے ادارک کر لیتے تو نہ بارہ اکتوبر 1999 آتا اور نہ 3 نومبر۔ اسلم بیگ کو بطور آرمی چیف ایسی سیاسی مداخلت سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ پیسوں کی تقسیم اسلم بیگ اور اسد درانی کا انفرادی کام تھا۔ پوری فوج کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ رقوم کی تقسیم کے الزامات پر بریگیڈیئر(ر)حامد سعید کو طلبی کا نوٹس جاری کیا گیا تھا جو علالت کے باعث پیش نہیں ہوئے تاہم رجسٹرار آفس کے دوبارہ رابطے پر بریگیڈئیر ر حامد سعید نے کل عدالت میں پیش ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔