اسلامی تہذیب کی معروف اسکالر اور معروف مستشرق۔ این مری شمل 7 اپریل 1922 کو جرمنی کے شہر ایفروت (سیکسنی) میں پیدا ہوئیں۔انیس برس کی عمر میں بون یونیورسٹی سے مملوک مصر میں خلیفہ اور قاضی کا رتبہ کے عنوان پر پی ایچ ڈی کیا۔مغرب کے ان مستشرقین کے برعکس جو ، اسلام میں خامیاں اور اس کا مغربی تہذیب سے تصادم تلاش کرتے رہتے ہیں ، اسلام اور مشرق کی ایسی اسکالر تھیں جنہوں نے اسلام کا مطالعہ اور تحقیق اس کے تخلیقی جوہر اور دانش کو ڈھونڈنے کے لیے کیا۔
این مری شمل انیس سو اٹھاون سے متعدد بار پاکستان آتی رہیں اور پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتی تھیں انہوں نے پاکستان میں اقبالیات ، تصوف اور علوم مشرقیہ پر متعدد لیکچر دیے ان کو جرمن زبان کے علاوہ عربی ، فارسی اور ترکی سمیت متعدد مشرقی زبانوں پر عبور حاصل تھا انہیں پاکستان کی علاقائی زبانوں ، سندھی ، سرائیکی اور پنجابی سے بھی شغف تھا این مری شمل سو سے زیادہ کتابوں کی مصنف تھیں اور ہاروڈ اور بون یونیورسٹیوں میں تدریس کرتی رہیں انیس سو ترپن سے وہ انقرہ یونیورسٹی میں بھی پانچ سال تک وابستہ رہیں اس دوران انہوں نے ترکی زبان میں کتب لکھیں اور علامہ اقبال کے کلام جاوید نامہ کا ترکی میں ترجمہ کیا ان کی بیشتر کتابیں اور مضامین تصوف کے موضوع پر ہیں۔
انہوں نے علامہ اقبال کی شاعری کے مجموعوں بانگ درا ، پیام مشرق اور جاوید نامہ کا جو جرمن زبان میں ترجمہ کیا انہیں جرمن ادب میں ایک بڑا مقام حاصل ہے اس کے علاوہ انھہوں نے مسلمان مفکروں اور شاعروں کی سینکڑوں کتابوں کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا ان کا گھر اسلام کے نایاب مخطوطوں سے بھرا ہوا تھا جن میں سے بہت سے نسخے انہوں نے بون یونیورسٹی کو دے دیے انہوں نے برصغیر پاک و ہند میں اسلام پر بھی ایک گراں قدر کتاب لکھی این مری شمل نے علامہ اقبال کے مذہبی خیالات کے مطالعہ پر مبنی ایک کتاب جبرائیل کے پر کے عنوان سے لکھی جسے اقبالیات میں ایک اہم کتاب شمار کیا جاتا ہے پاکستان حکومت نے انھیں اقبالیات پر ان کے کام کے اعتراف میں انیس سو اٹھاسی میں عالمی صدارتی اقبال ایوارڈ دیا۔
این مری شمل کی انگریزی اور جرمن شاعری کے دو مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں جس سے ان کی تخلیقی اور دانشوارانہ تنوع کا پتا چلتا ہے ان کی خدمات کے اعتراف میں دنیا کے بہت سے اسلامی اور مغربی ملکوں نے انہں لا تعداد انعمات سے نوازا پاکستان حکومت نے انیس سو تراسی میں انہیں ہلال امتیاز اور بعد میں ستارہ امتیاز دیا لاہور میں نہر کے ساتھ ساتھ چلنے والی سڑک کو عظیم جرمن شاعر گوئٹے کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جبکہ نہر سے پار جو سڑک ہے وہ این مری شمل کے نام سے موسوم کی گئی ہے جس کے بارے میں وہ ازراہ مذاق کہا کرتی تھیں کہ پاکستانیوں نے میرے مرنے کا بھی انتظار نہیں کیا ! پاکستان حکومت نے ان کے نام سے ایک سکالر شپ بھی قائم کیا۔26 جنوری 2003 کو ڈاکٹر شِمل کا انتقال ہوا۔