23 دسمبر 2012ء کو لاہور کے مینارِ پاکستان میں منعقدہ جلسہ طاہر القادری نے جو جمِ غفیر جمع کیا اس نے خان صاحب کے جلسہ کی تاثیر کو زائل کر دیا۔ اُسی دن انتخابی اصلاحات کیلئے ڈیڈ لائن دی گئی اور کہا کہ اگر یہ ڈیڈ لائن گذر گئی اور اصلاحات پر عمل در آمد نہیں کیا گیا تو 14جنوری 2013ء کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا۔
پھر 14جنوری بھی آگیا پھر حسبِ اعلان لانگ مارچ بھی لاہور سے شروع ہوا اور یہ لانگ مارچ 15جنوری کو موسم کی شدت اور خون کو منجمد کر دینے والی سردی کے موسم میں اسلام آباد پہنچ گیا۔ 70گھنٹوں پر محیط اس دھرنے میں کئی مواقع ایسے آئے جس میں حکومتی اور قادری صاحب کی طرف سے ایک دوسرے کو خوب الٹی میٹم دیئے گئے مگر حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔
وعدے کے مطابق کہ لانگ مارچ دھرنے میں کوئی پتہ اور کوئی گملہ نہیں ٹوٹے گا ، ہوا بھی ایسا ہی کہ کوئی گملہ نہیں ٹوٹا۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ لانگ مارچ بہت منظم تھا، جس پر لانگ مارچ کے منعقد کرنے والوں کی گرفت مضبوط تھی۔
کل مورخہ 17جنوری کو قادری صاحب کے آخری ڈیڈ لائن کے بعد حکومت کی طرف سے ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دے کر ان کے پاس بھیجا گیا، جس کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین صاحب تھے اور اراکین میں فاروق ستار صاحب، بابر غوری صاحب، افسریاب صاحب ، مشاہد حسین صاحب ، فاروق ایچ نائیک صاحب، خورشید شاہ صاحب، قمر الزماں کائرہ صاحب اور دیگر شامل تھے۔ کئی گھنٹوں کی مذاکرات کے بعد ایک ڈیکلریشن پر دستخط ہوئے اور یوں لانگ مارچ کا اختتام ہوا۔
Tahir ul Qadri Long March
یہ تو تھے وہ تفصیلات جو لانگ مارچ بلکہ بقول قادری صاحب کے انقلاب تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا اس لانگ مارچ میں جتنے لوگوں نے اس کڑاکے کی سردی میں شرکت کی کیا انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کر لئے یا وہی سیاسی مُک مُکا ہو گیا جس کا ہر پاکستانی سوچ رہا تھا۔ اور اگر واقعی انہیں کامیابی ہوئی ہے تو کیا اس پر عمل در آمد بھی کیا جائے گا یا پھر اس معاہدے کا حال بھی میثاقِ جمہوریت کی طرح ہوگا جس کا رونا ایک پارٹی آج بھی روتی ہے۔
اسی دوران سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی صادر ہوا کہ رینٹل پاور کیس کے تمام افراد کو فی الفور گرفتار کیا جائے جس میں وزیرِ اعظم پاکستان بھی شامل ہیں، اور یہ فیصلہ قادری صاحب کے خطاب کے دوران سامنے آیا جس پر قادری صاحب نے تمام شرکاء کو مبارک باد بھی دیا کہ آدھا کام ہوگیا ہے اور آدھا کام کل تک ہو جائے گا، مگر ایسا ممکن نہیں ہوا۔ اور موصوف آج بھی وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ہیں۔
اب یہ سماعت غالباً 23جنوری کو ہونا ہے۔اس کے اثرات حکومت پر کیا ہونگے اس کا فیصلہ تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر منحصر ہوگا فی الحال یہ خنجر جو حکومت کے سینے کی طرف تھے عارضی طور پر ٹل گیا ہے۔
اسلام آباد میں موسم کی شدت اور پھر بارش نے دونوں اطراف کے لوگوں کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ کسی طرح یہ مذاکرات ہوں اور کامیاب بھی ہو جائے تاکہ وہاں بیٹھے ہوئے شرکاء جن میں خواتین اور بچوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی انہیں کسی طرح واپسی کا اسپیس میسر کیا جا سکے اور خاص کر اسلام آباد جو کہ تقریباً پانچ روز سے مفلوج تھا اس کے شاہراہوں اور گلیوں کو پھر سے آزادی دلائی جا سکے۔
ویسے تو لانگ مارچ دھرنے کے منتظمین کی مانگ بہت زیادہ تھی اور اس میں وقتاً فوقتاً تبدیلی بھی ہوتی رہی ،مگر جو خاص چار نکات دیئے گئے تھے اس پر مذاکرات شروع کیا گیا۔ کیا دھرنا کے شرکاء کو موسم کی شدت اور بارش سے بچانے کیلئے یہ مذاکرات کئے گئے یا پھر واقعی اصلاحات پر عمل در آمد ہوگا اس کا فیصلہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا۔
بظاہر ڈیکلریشن کے الفاظوں سے پتہ چلتا ہے کہ تین نکات تو واقعی مِن و عن قبول کر لئے گئے ہیں ، الیکشن کمیشن کو Desolveنہیں کیا گیا ہے اور ڈیکلریشن میں یہ کہا گیا ہے کہ چند قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے گفت و شنید کے بعد 27جنوری کو ایک اجلاس پھر منہاج القرآن کے مرکز پر ہوگا جس میں اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ اس میں تبدیلی کوکس طرح ممکن بنایا جائے۔
ان حالات میں ایسا نہیں لگتا ہے کہ ایک دم دونوں اطراف کی خواہشات کے مطابق فارمولا طے پا جانے میں کوئی قدر مشترک ہو سکتی ہے ، کیا ڈاکٹر صاحب پسپائی کی طرف جا رہے تھے، یا حکومت صرف ڈی چوک خالی کروانے کے لئے مذاکرات کر رہی تھی، تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ دراصل ڈاکٹر صاحب اب پسپائی کی طرف جا رہے تھے اور حکومت نے جس سیاسی تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا ہے عنقریب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے والا تھا اس لئے مذاکرات کئے گئے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق جیسے ہی لانگ مارچ کا لاہور سے آغاز ہوا اور لاہور سے اسلام آباد کی جانب عازمِ سفر ہوا تو ان کے ذہن نے نئی انگڑائی لی اور انہوں نے الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کر دیا ،جس سے اسلام آباد سمیت سیاسی پنڈتوں کے محلوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں ، اے پی سی بھی منعقد کیا گیا ، مگر اب ان کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ دھرنا ختم ہو چکا ہے اور مذاکرات کامیاب ہو چکے ہیں۔
مگر سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو معاہدہ ڈیکلریشن کے طور پر لکھا جا چکا ہے اگر اس پر عملدرآمد مِن و عن ہو گیا تو یہ خطرے کی گھنٹی جو صرف بج رہی تھی وہ بجتی چلی جائے گی اور سارے سیاسی پنڈتوں پر سولی بن جائے گا۔ کاش کہ یہ سب کچھ ہو جائے اور عوام کی داد رسی اور عوام پر ہونے والے ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو جائے۔ ظلم و بربریت صرف مار ڈھار ہی نہیں ہوتا بلکہ عوام پر مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، فرقہ وارانہ فسادات اور نہ جانے کتنی ہی افتاد ہیں جو ظلم و بربریت کے زمرے میں آتی ہیں اور عوام کا سکون و چین ان سب کی وجہ سے برباد ہو چکا ہے اور اس کے ذمہ دار نہ صرف حکمران بلکہ تمام ہی لوگ ہیں جنہوں نے ان کے خاتمے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔
آج کی حکومت ہر عیب کا سہرا پچھلی حکومت پر ڈالتی ہے اور آنے والی حکومت اِن پر ڈال دے گی اگر اسی طرح طرزِ حکمرانی قائم و دائم رہی تو عوام پِس تو رہے ہیں مزید پستے چلے جائیں گے اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے تمام ہی عوام کسی ایک ایشو پر متفق ہو کر ایک اور انقلاب کی طرف بڑھیں گے۔
اس ے پہلے کہ اس قسم کی کوئی ترغیبات کسی طرف سے آئے ۔ ہمیں اس نئے سال کے شروعات میں اور عوامی بھلائی کے لئے بہرحال صنعت، تعلیم، تربیت، نوکری، امن و امان کیلئے فکر سازی کرنی ہوگی۔ زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے ہمارے اس طرح کی چھوٹی موٹی عادات و اطوار سے سماج کی تعمیر ہوتی ہے کیا اس سال ہم اس طرح کے کاموں کو اپنانے کا عہد نہیں کر سکتے۔ کوشش کریں کیونکہ عملی جامہ پہنانے کیلئے ابھی پورا سال باقی ہے اور اسی سال نئی حکومت نے بھی باگ دوڑ سنبھالنا ہے۔ تو ہر ایک کو یہ کوشش ضرور کرنی چاہیئے تاکہ عوام خوشیوں کی طرف اپنا سفر کرنا شروع کر سکیں۔
Long March Participants
یوں تو دھرنے کے مظاہرین نے کچھ راستے تو متعین کر ہی دیئے ہیں جس سے آنے والے وقتوں میں یقینا کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آئے گی۔ معاہدے کے بعد لوگوں کا سجدہ ریز ہونا بھی قابلِ دید تھا ، اور جو لوگ سجدہ ریز ہوئے خدائے بزرگ و برتر کبھی ان سجدوں کو بیکار نہیں جانے دیتا اس لئے اب لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں کچھ بہتری کی امید بندھی ہے۔
دعا ہے کہ دھرنے کے مظاہرین جس طرح خیر و خوبی سے دھرنے کے مقام تک آئے تھے ان کا واپسی کا سفر بھی اسی طرح خوش اسلوبی سے طے ہو جائے تاکہ اس دھرنے میں جو امن قائم تھا اس کی مثال تابندہ رہے۔میں اس شعر کے ساتھ ڈی چوک کے تجزیاتی مضمون کا اختتام چاہوں گا۔
جہاں دریا کبھی اپنے کنارے چھوڑ دیتا ہے کوئی اُٹھتا ہے اور طوفان کا رُخ موڑ دیتا ہے