کراچی (جیوڈیسک) کراچی کو بدامنی نے گھیر رکھا ہے، ٹارگٹ کلنگ نے آج مزید 3 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا۔ پولیس اور رینجرز کی کارکردگی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔شہر روزگار میں موت کا کاروبار عروج پر ہے پاکستان کی معاشی شہ رگ جرائم پیشہ افراد کے شکنجے میں ہے۔ ہر دن خوف کا سورج لیے شروع ہوتا ہے اور ہر شام کئی گھروں میں ماتم لیے آتی ہے۔ دن دہاڑے بینک لٹ رہے ہیں اور ٹارگٹ کلر موت بانٹ رہے ہیں۔ اپنوں کے جنازے اٹھاتے کندھے اب تھک چکے ہیں لیکن ان کے آنسو پونجنے والا کوئی نہیں۔ آج پھر بوری بند لاشیں ملیں اور لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنتے رہے۔ شادمان ٹان میں کے ایم سی کے ملازم شفقت کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔
پرانی سبزی منڈی نشتر بستی سے تشدد زدہ لاش ملی ہے۔ قصبہ کالونی میں اسپیر پارٹس کی دکان پر بیٹھے علی رضا کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا گیا جس نے عباسی اسپتال میں دم توڑ دیا۔ ادھر حب ریور روڈ پر بس ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ سے 2 افراد زخمی ہو گئے۔ شریف آباد میں ایک شخص کو گولیاں مار دی گئی۔ منگل کو جاں بحق ہونے والے مرزا وقار حسین ایڈووکیٹ کی نمازجنازہ ادا کر دی گئی۔
انہیں وادی حسین قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ رضویہ میں دکانیں اور بازار بند رہے۔ ٹارگٹ کلر اب مختلف شعبوں کے ماہرین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ گزشتہ روز 13 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے جن میں ڈائریکٹر ایجوکیشن اسکولز بینک کا منیجر، تعمیراتی کمپنی کا مالک اور پیپلزپارٹی کا مقامی عہدے دار بھی شامل ہیں۔