اِس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کے حالات زبان کی نوک پر لگے اُس انگارے کے مانند ہیں جس کی وجہ سے زندگی کا خاتمہ ممکن ہوگیاہے یعنی یہ کہ آج شہر کراچی میں چار روز سے جاری دہشت گردی کی تازہ ترین کارروائیوں کے دوران 95سے زائد افراد کی ہلاکتیں اور سیکڑوں کے زخمی ہونے کے واقعات نے سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف حکومت کے کراچی میں امن وامان قائم کرنے کے اُن تمام بلندوبانگ دعوؤں اور وعدوں کی قلعی کھول دی ہے جس سے متعلق حکومت ہمیشہ چین کی بانسری بجاتے نہیں تھکتی ہے۔ایسے میں اگر حکومت نے عوامی مطالبوں پر بھی شہر میں فوج کو طلب نہ کیاتو پھر یہ سمجھ لیاجائے کہ حکومت کراچی کی تباہی کی خود ذمہ دار ہوگی ۔اگرچہ حکومت کے کراچی میں امن وامان قائم کرنے کے کاغذی دعوے تو بے شمار ہیں ویسے اگر یہ سچ ہیں تو پھراِس کے باوجود بھی شہر کراچی میں قتل وغارت گری ، بازاروں سے بھتوں کی وصولی سمیت پبلک مقامات اور ٹرانسپورٹ سے لوگوں کے اغوااور قتل کا سلسلہ ہواکے تیز چلنے والے جھونکوں کے ساتھ ساتھ کیوں جاری ہے جس کی وجہ سے شہری عدم تحفظ کا شکار ہوکررہ گئے ہیں تب ہی توکراچی کے حالات کو دیکھتے ہوئے کراچی کے دوکروڑ سے زائد شہری اور یہاں سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں بھی حکومت سے بس یہی ایک مطالبہ کررہی ہیں کہ حالات کو درست کرنے اور شہر کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے فوری طور پر فوج کو طلب کیاجائے اِن سارے حالات کے پیشِ نظرہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے ہر طبقے کا حکومت سے شہر میں فوج کی طلبی کا مطالبہ درست یوں بھی معلوم دیتاہے کہ اِس شہر کے باسی اپنے ہی شہر میں روز روز کی درجنوںکے حساب سے ہونے والی خونریزی سے بیزار آچکے ہیں یوںاِن کا یہ مطالبہ اِس لحاظ سے بھی اور زیادہ شدت اختیارکرچکاہے جب گزشتہ دنوں گورنگی کے علاقے چکراگوٹھ میں دوگروپوں کے درمیان گولیوں کے تبادلے کے نتیجے میں دو افراد کی ہلاکت اور متعدد کے زخمی ہونے سے پیش آنے والی صورت حال کو قابو کرنے کے لئے جب سادہ لباس میں ملبوث پولیس اہلکاروں کی گاڑی چکراگوٹھ جارہی تھی توگورنگی نمبر ڈھائی پر اِس گاڑی پر نامعلوم مسلح افراد نے اندھادھندفائرنگ کردی جس کے نتیجے میں6پولیس اہلکار ہلاک اور 25 سے زائد شدید زخمی ہوگئے اِس واقعہ کے پیش آجانے کے بعد کراچی کے عوام میں یہ احساس اور شدت اختیار کرگیاہے کہ یہ بری طرح سے عدم تحفظ کے شکار ہوکررہ گئے ہیں کیوںکہ جب اِنہیں سیکورٹی فراہم کرنے والوں کوہی دہشت گرد بے دردی سے نشانہ بنارہے ہیں تو پھرشہرکراچی کا ایک عام نہتاشہری دہشت گردوں کی وحشیانہ کارروائیوں سے کیوں کر محفوظ رہ سکتاہے ایسے میں کراچی کے شہریوں کے اِس مطالبے پر حکومت کو بغلیں جھانکنے اور اِدھر اُدھر کی بہانے بازی کرنے کے بجائے شہر میں فوری طورپر امن قائم کرنے اور عوام کے تحفظ کے لئے ا قدامات کرتے ہوئے شہر میں فوج طلب کرکے امن وامان قائم کرنے کی اپنی ہر ممکن سعی کرنی چاہئے ۔جبکہ شہرکراچی کی دن بدن بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیشِ نظر ایک طرف تو شہری اور سیاسی اور مذہبی جماعتیں شہر میں حکومت سے فوج طلب کرنے کا اپناپرزورمطالبہ جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسرے طرف ہرمعاملے میں سیاسی اور اپنی مطلب کے خواب دیکھنے والے وزیرداخلہ سندھ منظوروسان ہیں جنھوں نے اسلام آباد ایئررپورٹ پرصحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے اپنی انتہائی بے خبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ یوں کہاکہ کراچی کے حالات پوری طرح سے کنٹرول میں ہیں (جبکہ اِس پر ہمارا خیال یہ ہے دنیادیکھ رہی ہے کہ شہر میں لاشوں کے انبار لگے ہوئے ہیں اور ہر گھر ماتم کدہ بن گیاہے اِس پر وسان جی کا یہ کہنا کسی لطیفے سے کم نہیں ہے )فوج کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں ہے اور انتظامی اقدامات کے نتائج ایک دور وز میں اچھے ثمرات کے ساتھ خودبخود سامنے آجائیں گے اِس موقع پر ہمیں شاعر کا یہ شعر شدت سے یاد آگیاکہلہو کو رنگ ، گلابوں کو خار کہتے ہیں یہ کیسے لوگ خزاں کوبہار کہتے ہیںمیں کیسے اُن کو گُلستاں کا پاسباں سمجھوں جوآندھیوں کو نسیم بہار کہتے ہیں یعنی یہ کہ جب شہرکراچی کی بگڑی ہوئی صورت حال سے صوبائی وزیر داخلہ ہی بے خبر ہوں تو پھر کسی اور کا کیاکہنا….؟اِس پر وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی اپنی حسب معمول لفاظی کاسہارالیتے ہوئے ایک بار پھر یہ بیان داغادیاہے کہ کراچی میں امن و امان کے قیام کے لئے حکومت کوئی کسر نہیں اٹھارکھے گی اور حکومت نے اَب یہ تہیہ کرلیاہے کہ ہر قسم کے سیاسی مصالحتوں سے بالاتر ہوکر دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے گی اور اِس کے ساتھ ہی مسٹر جنابِ محترم رحمن ملک نے یہ بھی کہاہے کہ اگر شہر کراچی کے حالات ایسے ہی رہے تو حکومت کو فوج کو طلب کرنے میں کوئی قباحت نہیں تو اِن کے اِس بیان پر ہم یہ عرض کرناچاہیں گے کہ مسٹر رحمن ملک جی شہر کراچی میں اتنی زیادہ انسانی جانوں کی ہلاکتوں کے بعد بھی آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ آپ کو کراچی میں فوج کو بلانے میں کوئی قباحت نہیں ہم یہاں یہ سمجھتے ہیں کہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آپ کو تو یہ چاہئے تھا کہ جب آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ شہرکراچی میں تمام تر اضافی اختیارات کے باوجود پولیس اور رینجر عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور امن وامان کے قیام میں بری طرح سے ناکام ہوگئے ہیں تو آپ کوایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر فوراََ ہی شہر میں فوج طلب کرلینی چاہئے تھی تاکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں عوام ذبح ہونے سے بچ جاتے اور اِس کے ساتھ ہی ہماراخیال یہ ہے کہ مگر اِس کے لئے آپ کے دل میں اپنے ملک اوراپنی عوام سے ذرابرابر بھی محبت کا جذبہ مزین ہو تاتو آپ اور آپ کی حکومت تُرنت ایساکرتی مگر افسوس کہ شایدایسانہیں ہے جس کا ہم تذکرہ کررہے ہیں۔ محمداعظم عظیم اعظمazamazimazam@gmail.com