لوگ کہتے ہیںکہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے جبکہ میںکہتا ہوں کہ پاکستان تو ترقی یافتہ ملکوں سے بھی کہیں آگے نکل چکا ہے۔ کہنے کو تو ہم لوگ غیر ملکی امداد پر چل رہے ہیں لیکن یہ سفید جھوٹ ہے کیونکہ جس ملک کے سیاستدان سینٹ کے الیکشن میں سیٹ کے لیے صرف ایک ووٹ کی خاطرکروڑ وں روپے دے سکتے ہیں تو بھلا وہ ملک دوسرے ممالک کی امداد پر کیسے چل سکتا ہے ؟ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان کی عوام غریب اور مسائل سے دوچار ہے جبکہ پاکستان کے سیاستدان جو عوام سے ہمدردی کا نعرہ لگاتے ہیں، الحمد اللہ یہ سب عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے مالامال ہیں۔ عوام یہ پڑھ اور سن کر ہنستی ہے کہ فلاں سیاستدان کی کوئی جائیداد نہیںیا اس کی جائیداد میں صرف ایک رہائشی گھر ہے۔
ہمارے لیے یہ اس دن کا سب سے مزاحیہ لطیفہ ہوتا ہے ۔ اس دور میں جب یونین کونسل کا الیکشن لڑنے کا خرچہ عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا ۔ جبکہ ایم این اے یا ایم پی اے کے الیکشن میں لو گ بڑی بڑی گاڑیاں اور بڑے بڑے قافلے استعمال کرتے ہیں پھر اپنے مخالف کو شکست دینے کے لیے ووٹ خریدنے کے لیے پیسے دینے پڑے تو اس بھی دریغ نہیں کرتے ۔ حال ہی میں سینٹ الیکشن میں سرعام بلکہ میڈیا کے اوپر بھی اسی قسم کا چرچہ رہا ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں ووٹ کے لیے کروڑوں روپے تقسیم کیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی رقم ان تقسیم کرنے والوں کے پاس آئی کہاںسے؟ اگر یہ رقم فلاحی کاموں کے لیے فنڈ کی آڑ میں دی گئی تو پھر اتنے عرصہ سے ان سیاستدانوںنے عوام کے حق پرکیوں ڈاکہ ڈالے رکھا؟ کیا یہ فلاحی کام اب ہی ان لوگوں کو نظر آئے ہیں ؟ پچھلے کئی سال سے ان کو کیوں نظر انداز کیے رکھا ؟ عوام بے چاری اپنے مسائل کے لیے روتی پھر رہی ہے اور یہ سیاستدان صرف زبانی کلامی خرچ کرکے ان کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ویسے یہ ایک الگ بات ہے کہ ان سیاستدانوں کے اخراجات بھی تو غریب عوام سے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے انہوں نے ہر ماہ ایک عوامی کمیٹی ڈال رکھی جو ہر ماہ یکم تاریخ کو نکلتی ہے ۔
ویسے توعام طور پر عوامی سطح پراس کو لکی کمیٹی کانام دیا جاتاہے یا پھر ماہانہ کمیٹی ۔ مگر ہمارے حکمرانوں کی اس کمیٹی کا نام ہے پٹرول ،ڈیزل اور تیل کمیٹی جو ہر ماہ ہر عوام الناس بڑی خندہ پیشانی سے براداشت کرتی ہے اور اُف تک نہیں کرتی یہاں تک کہ اس میں ہر ماہ اضافہ ہی ہورہا ہے کمی کی تو گنجائش ہی نہیں ہوسکتی۔ اسکے علاوہ حکمران ایل پی جی، سی این جی کی بھی کمیٹی اکثر و بیشتر ڈالتے رہتے ہیں جس میں دن بدن بتدریج اضافہ ہورہاہے۔ اب تو ہماری پیاری وفاقی وزیراطلاعات و نشریات نے یہ خوشخبری دے دی ہے کہ بجٹ کے بعد عوام الناس کے لیے ریڈیو کمیٹی کا اجرا کیا جارہا ہے جس میں ہر وہ شخص شامل ہوگا جو موبائل فون کا استعمال کرتا ہو۔ الحمد اللہ پاکستان کی عوام ان تمام کمیٹیوں میں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈال رہی ہے اور ڈالتی رہے گی مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس کمیٹی کا قرعہ صرف حکمرانوں کے حصے میں آرہا ہے عوام کے نہیں۔ جس کا منہ بولتا ثبوت حال ہی میں ہونے والے سینٹ کے الیکشن میں سب نے دیکھ لیا ۔ جہاں ایک ایک ووٹ کی قیمت کروڑوں میں ہے اور یہ سب پیسہ غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی کا ہے۔
پاکستان کے سیاستدان جتنا زیادہ اپنا خرچہ بڑھائیں گے اتنا ہی زیادہ ٹیکس اور لوڈ پاکستانی عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اب پاکستان کے شہروں میں بجلی تو صرف 10سے 12گھنٹے تک نہیں ہوتی مگر بجلی کا بل 24گھنٹے کی بجلی سے بھی کہیں زیادہ آتا ہے ۔ اس کے علاوہ اگر آمدن کی طرف نظر ڈالی جائے تو پاکستان کے ملازمین کے تنخواہ میں اضافہ سال میں ایک بار ہوتا ہے اور وہ بھی 10سے 15فیصد تک اور وہ بھی بنیادی پے سکیل پر جبکہ استعمال کی چیزوں میں اضافہ ہر ماہ کیا جاتا ہے اور اگر اس کی سال کے آخر میں ایوریج نکالیں تو یہ سالانہ اضافہ 50سے 60فیصدتک بنتا ہے ۔اس سے اندازہ لگا لیں کہ اخراجات میں زیادہ اضافہ ہوا یا آمدن میں۔ کیا پاکستان کی عوام اس لیے یہ کمیٹیاں(ٹیکس) دے رہی ہے کہ اس کو اس کا حق بھی پورا نہ مل سکے۔
اے پاکستان کے حکمرانو ذرا سوچو ! عوام تو ہر حال میں تمھارے ساتھ چلتی ہے اور تمھارے دکھائے ہوئے خوابوں کو حقیقت سمجھ بیٹھتی ہے اور ایک نئی امید لگا کر تمھارے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے مگرتم لوگ ہمیشہ اس کے ساتھ دھوکہ کرجاتے ہویہاں تک کہ جب ملک پر کوئی برا وقت آیا تو اس نے دل کھول کر ان سیاستدانوں کا ساتھ دیا ، قرض اتارو ملک سنوارو پروگرام ہو یا شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر ،سیلاب زدگان کی مدد ہو یا زلزلہ زدگان کا دکھ ، پاکستان کی عوام نے دل کھول کر اس میں چندہ دیا حتیٰ کہ ماں بہنوں نے اپنے زیور تک ان کو دے دیے ۔ کیا یہ حکمران کبھی عوام کی طرف سچے دل سے سوچیں گے؟ کیا عوام کی پریشانیاں حکمران سمجھ سکیں گے؟ کیا یہ سیاستدان عوام کے دلوں میں اپنا اعتبار ، بھروسہ اور اعتماد پیدا کرسکیں گے؟ کیونکہ اب تو سیاست کا مطلب ہر شخص جھوٹ سمجھتا ہے بلکہ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی سے و عدہ کرتا ہے تودوسرا شخص اس سے کہتا ہے کہ یہ سیاسی بیان تو نہیں؟اس بات سے آپ اندازہ لگالیں کہ سیاست کو لوگ کس طرح سمجھتے ہیں؟ میں تو یہ ہی دعا کروں گا کہ اللہ پاکستان کے حکمرانوں کو ہدایت دے کہ وہ اپنی عوام کے حالات کو سمجھ سکیں اور ان کے دکھ کو سمجھ کر ان کی خدمت کرسکیں۔ تحریر :عقیل خان