حکومت کے خلاف فوج میں بغاوت پھیلانے اور فوجی صدر دفاتر پر حملے کی سازش کرنے کے الزام میں گرفتار بریگیڈئیر علی خان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ فوجی قیادت ان کے بھائی کے خلاف کورٹ مارشل کارروائی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ ذرائع کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈئیر علی کے چھوٹے بھائی ملک بشیر نے کہا کہ ان کے بھائی کو سول وکیل سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اور انہیں خدشہ ہے کہ کورٹ مارشل کی کارروائی بھی غیر جانبدار اور شفاف نہیں ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے وکیل اسد منظور بٹ گزشتہ ہفتے حکام کی اجازت سے طے شدہ وقت پر بریگیڈئیر علی سے ملنے سیالکوٹ چھانی پہنچے تو وکیل کو اپنے مکل سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ملک بشیر نے کہا کہ فوجی حکام کا اصرار ہے کہ بریگیڈئیر علی سے صرف فوج کے مقرر کردہ فوجی وکیلِ دفاع ہی ملاقات کر سکتے ہیں۔یہ قواعد کی سراسر خلاف ورزی ہے اور ہم اس رویے کے خلاف سول عدالتوں سے رجوع کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بریگیڈیئر علی خان کو چھ مئی کو جی ایچ کیو (بری فوج کے صدر دفاتر) میں واقع ان کے دفتر سے حراست میں لیا گیا تھا۔ اس دوران ان کے خلاف حزب التحریر کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام میں تحقیقات ہورہی تھیں۔بریگیڈیئر علی خان پر عائد کی جانے والی فردِ جرم کے مطابق سول حکومت کے خلاف بغاوت کے ساتھ ساتھ بریگیڈیئر علی خان نے بعض فوجی افسروں اور سویلین افراد کے ساتھ مل کر فوج کے صدر دفتر جی ایچ کیو پر حملہ کر کے وہاں لوگوں کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی اور ان مقاصد کے حصول کے لیے انہوں نے فوج کی ٹرِپل ون بریگیڈ گروپ کے سربراہ اور بعض دیگر اہم افسروں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ ملک بشیر نے کہا کہ اعلی فوجی حکام ان کے بھائی کے خلاف مقدمہ شروع کرنے میں تاخیری حربے اختیار کر رہے ہیں حالانکہ فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی باقاعدہ بنیادوں پر شروع ہو جانی چاہیے۔استغاثہ کے پاس ہمارے بھائی کے خلاف شواہد نہیں ہیں اور وہ صرف وقت ضائع کر کے انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان کی تین نسلوں نے ساٹھ برس فوج کی خدمت کی ہے اور وہ فوج کے اندر رہ کر ہی اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔لیکن یہ ناانصافیاں ہمیں مجبور کر رہی ہیں کہ ہم فوج کی بجائے سول عدالتوں میں یہ معاملہ لے کر جائیں جو ہرگز ہماری ترجیح نہیں ہے۔ ملک بشیر نے کہا کہ ہماری اعلی فوجی حکام سے درخواست ہے کہ وہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کریں اور بریگیڈئیر علی کو منصفانہ کورٹ مارشل کا سامنا کرنے کا موقع دیا جائے۔ ملک بشیر کا کہنا تھا کہ اگر فوجی حکام دبا نہ ڈالیں تو انہیں پورا یقین ہے کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ان کے بھائی کے حق میں فیصلہ دے گی۔ ملک بشیر نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے اپنے بھائی سے ملاقات کی اور اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے بارے میں برگیڈئیر علی کا مقف بالکل واضح ہے کہ انہیں اعلی قیادت کے سامنے سچ بات کہنے اور ناپسندیدہ سوالات اٹھانے پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔