کبھی کبھی قوموں پر اپنے دوستوں اور دشمنوں کی جانب سے ایسے بھی آزمائشی لمحات نازل ہو جایا کرتے ہیں کہ جن سے ملی یکجہتی اوراتحاد ویگانگت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے قوم کے ہر فرد کو اپنی بقاوسالمیت کے خاطر ایسے فیصلے کرنے ہوتے ہیں جن پر قائم رہ کر وہ اپنی بقاء اور سالمیت پر قائم رہتی ہیں اور آج بھی دنیاکی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ جن قوموں نے آزمائشی لمحات کا مقابلہ باہمی اتحاد و یگانگت اور ملی یکجہتی کے جذبے کے ساتھ کیاتو وہی قومیں امر ہوگئیں ہیں اوردوسری طرف کچھ ایسی بھی قومیں گزریں ہیں جو خود پر نازل ہونے والے آزمائشی لمحات میں متززل ہوئیں اور ٹولیوں اور گروپو ں میں بٹ کر اپنے اندر انتشار اور افتراق میں تقسیم ہو گئیں تو انہوں نے ہی شدید نقصان اٹھایااور بالآخر اپنے انجام کو پہنچ کر صفحہ ہستی سے بھی مٹ گئیں اِن دنوں ایسی ہی کیفیت سے ہماری قوم بھی گزررہی ہے اب دیکھنا ہے اِس کا کیا ہو گا۔
Salala Check Post
اِس میں کوئی شک نہیں کہ 26نومبر 2011کی شب جب افغانستان کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں پاک فوج کی سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی و اتحادی فوجیوں کے ہیلی کاپٹروں کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں 24پاکستانی فوجی جوانوں کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو ساری پاکستانی قوم بشمول ہمارے موجودہ حکمران، سیاستدان اور اعلیٰ فوجی قیادت لرز اٹھی تھی اورسب نے امریکی انتظامیہ سمیت نیٹوافواج کے سربراہان سے بھی اپنا پر زور احتجاج ریکارڈ کرایا تھا بات یہیں ختم نہیں ہو گئی تھی بلکہ دورِ آمرجنرل پرویز مشرف کے بعد شاید پہلی بار ہی ہمارے حکمرانوں نے اپنی قوم کے ساتھ مل کر اِس کی خواہش کے مطابق اپنی بقاء و سالمیت کے خاطر ایک فیصلہ یہ بھی کر دیا کہ پاکستانی زمینی راستوں سے افغانستان میں نیٹو افواج کے لئے ہر قسم کی نقل وحمل سمیت اِن کے سازوسامان کی ترسیل پر بھی فی الفور بند عائد کر دی جائے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ساری پاکستانی قوم نے اپنے غم وغصے کا اظہار اپنے اِس فیصلے کو عملی جامہ پہنا کر کر دیا اور آج جب ہم یہ سطور رقم کر رہے ہیں تو اِس پابندی کولگے 170دن گزر چکے ہیں۔
Nato Supply Trucks
اگرچہ اِس کے بعد دہشت گردِ اعظم امریکا کو افغانستان میں اپنے عزائم کی تکمیل میں بے شمار رکاوٹیں اور پریشانیاں درپیش آئیںاور اِس سارے عرصے کے دوران امریکا بہادرکو ڈیڑھ ارب کے اضافی اخراجات کا بھی نقصان اٹھانا پڑا ہے اِس حوالے سے پاک امریکا جنگی مبصرین اور تبصرہ نگاروں کا خام خیال یہ ہے کہ اِس عرصے کے دوران معاشی طور پر پڑنے والے اضافی اخراجات کی وجہ سے بڑی حد تک امریکا کی کمر ٹوٹ گئی اور افغانستان میں پیمپرز پہن کر لڑنے والی نیٹو کی افواج کو بھی پریشانیوں کا منہ دیکھنا پڑا کیوں کہ امریکی اور اتحادی افواج افغانستان جیسے دنیا کے خطر ناک ترین محاذ ِ جنگ میں بغیر پیمپرز پہنے لڑ ہی نہیں سکتی ہے اِس بات سے امریکی اور اتحادی افواج کے سربراہان بھی خوب واقف ہیں اِس لئے افغانستان میں اپنی کامیاب کا خواب دیکھنے والی امریکی اور اتحادی افواج کے سربراہان کی کوشش یہ رہی ہے کہ جلد ازجلد پاکستانی زمینی راستوں کے ذریعے اِ ن کی افواج کے لئے سازوسامان کی فراہمی کھولی جائے اور یہی وجہ ہے کہ اِنہوں نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے لئے پہلے اپنے سربراہِ مملکت پر دباؤ بڑھایا اور پھر اِن کے ذریعے پاکستان پر ایساشدید ترین دباو ڈالا کہ پاکستانی حکمران ، سیاستدان اور اعلی فوجی قیادت کے دلوں میں افغانستان میں پھنسی امریکی اور اتحادی افواج کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ بیدار ہو گیا اور اِنہوں نے اپنے زمینی راستوں سے جنگی سازوسامان کے ساتھ ساتھ نیٹوافواج کے لئے خصوصی طور پر پیمپرز کی ترسیل سمیت دیگر سازوسامان کے لئے نیٹوسپلائی کی بحالی کا اعلان کردیااگر پاکستانی حکمران ایسے وقت میں یہ فیصلہ نہیں کرتے توپھر نیٹوسپلائی کی بندی کے حوالے سے جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ویسے ویسے امریکا کا صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوتا جاتا اور یہ اپنی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں فرنٹ لائین کا کردار ادا کرنے والے پاکستان کی قربانیوں کو فراموش کر دیتاور اِس کی دوستی کو گڑھے میں دفن کر کے اِ س پر معاشی و اقتصادی اور سیاسی و اخلاقی پابندیاں لگا اِس کا حقہ پانی بند کر دیتا تو پھر کیا ہوتا یہ کیا واقعی ہماری باہمت قوم کے لئے کوئی امتحان ہوتا۔
Hina Rabbani
اِدھر گزشتہ دنوں اِس کے اِن ارادوں اور عزائم کو بھانپتے ہوئے ہمارے انتہائی محب وطن اور اپنے اقتدار اور جہوریت کو بچانے والے حکمران، سیاستدان اور ملک کی دیگر اہم اشخاص سر جوڑ کر بیٹھیں اور اِس نتیجے پر فوراً پہنچیں کہ اب امریکا کی ناراضگی ہم سے زیادہ دن تک دیکھی نہیں جاسکتی ہے اور اگر یہ ناراض ہوگیااور اِس نے اگر ایسی ویسی کوئی پابندی ہم پر لگا دی تو پھر ہم کیا کریں گے اور ہم کدھر جائیں گے اگر اِس کو خوش نہ کیا تو ہمارے سارے خواب چکنا چور ہو جائیں گے اور ہم کہیں کے بھی نہیں رہیں گے اور اِ س سے قطع نظریہ کہ امریکا نے اپنی غلطی کی ہم سے آج تک معافی نہیں مانگی توکیا ہوا مگر پھر بھی چلو چلو جلدی کرو اور جس قدر جلد ممکن ہو سکے امریکا اور نیٹوافواج کو خوش کرنے کے لئے 15مئی سے 20مئی تک کی کوئی بھی تاریخ دے کر اِس کو یہ باور کرا دو کہ نیٹو سپلائی کی بارات اِن تاریخوں میں سے کسی بھی تاریخ میں افغانستان کے لئے روانہ کردی جائے گی اور پھر پاکستانی زمینی راستوں کے ذریعے افغانستان میں بلاکسی تعطل کے نیٹوسپلائی کی بارات کی شکل میں سلسلہ جاری رہے گا اور نیٹو افواج کو پیمپرز کی سپلائی بھی جاری رہی گی اِس پس منظر میں اب دیکھنایہ ہے کہ اِس سارے عمل میں کون جیتا اور کون ہارا ہے اور کیا ہم نے 170دن تک نیٹو سپلائی پر پابندی لگا کر اپنی بقاء و سا لمیت کا امریکیوں سے احترام کرا لیا ہے اور یا اب نیٹو کی بحالی کا پروگرام بناکر اپنی بقاو سا لمیت کا سوداکر ڈالاہے اور کیا ہمارے حکمران یہ بتا سکیں گے کہ انہوں نے اپنے 24فوجی جوانوں کے خون کے ایک ایک قطرے کی کیا قیمت وصول کی ہے۔