میرے مُرشد شیخ السلام پروفیسر ڈاکٹر حضرت مولانا علاّمہ طاہر القادری اسلام آبادصاحب نے اسلام آباد میں چالیس لاکھ کا مجمع اکٹھا کرکے تاریخِ عالم میں اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے امر کر لیا۔چار دنوں تک اُنہوں نے اسلام آباد کو یر غمال بنا کے یزیدیوں کو گھُٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور نہ صرف اپنے تمام مطالبات منوا لیے بلکہ حکومت وہ کچھ بھی مان گئی جس کا مُرشد نے تقاضہ بھی نہیں کیا تھا۔
جب سے مُرشد پاکستان تشریف لائے ہیں ، اُن کے لکھاری مریدین میں چشمک جاری ہے ۔ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اپنے آپ کو مریدِ اولیٰ ثابت کرنے کی کوششوں میں مگن ہے لیکن میں اِس دَوڑ میں شامل نہیں کیونکہ لفظی بازیگری کی بجائے مَیں ہمہ وقت عملی طور پر مُرشد کے لیے کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی اُمنگوں کو جوان رکھنے کی تگ و دَو کرتی رہتی ہوں۔ ویسے بھی مَیں محترم عرفان صدیقی جیسی خوبصورت نثر لکھنے سے قاصر ہوں ۔اُن کے کالم پڑھ کر تو مولانا محمد حسین آزاد یاد آ جاتے ہیں جن کی نثر پڑھ کر ہم نظم کا مزہ لیا کرتے ہیں۔عطاء الحق قاسمی صاحب کے سامنے توہم طفلِ مکتب ہیں اور کوئی کچھ بھی کہے ، سچ تو یہی ہے کہ اُن کے اندازِ بیاں کے آگے سبھی طفلِ مکتب ہیں۔
میں ہمیشہ صدیقی صاحب کے کالم بڑے اہتمام سے اور قاسمی صاحب کے چسکے لے لے کر پڑھتی رہتی ہوں لیکن جب سے یہ راز افشاء ہوا ہے کہ یہ حضرات بھی شیخ السلام پروفیسر ڈاکٹر حضرت مولانا علاّمہ طاہر القادری صاحب کے مریدین میں شامل ہیں ، ایک ان دیکھا ، ان جانا حسد میرے جسم میں سرایت کرچُکا ہے ۔بڑی کوشش کی کہ اِس حسد کو رشک میں بدل دوں لیکن عبث ،بیکار ، بے سود ۔ باوجودیکہ میرا دِل جَل بھُن کے سیخ کباب ہو چُکا ہے ، پھر بھی کم از کم یہ تسلی ضرور ہے کہ یہ حضرات صرف لفظی بازیگری سے دِل موہتے ہیں جبکہ میں اپنے مُرشد کے لیے میدانِ عمل میں ہوں۔
جب میں نے محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کا پیمپرز والا کالم پڑھا جس میں قاسمی صاحب نے فرمایا تھا کہ اسلام آباد میں ٹائلٹوں کی عدم دستیابی کی بنا پر حضرت علّامہ نے چالیس لاکھ پیمپرز کا آرڈر دے دیا تو میرا دِل فرطِ عقیدت سے جھومنے لگا اور اتنا جھوما کہ خود مجھے بھی چکر آنے لگے ۔میری کیا مجال کہ میں قاسمی صاحب کی تردید کر سکوں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ حساب میں تھوڑے کمزور ہیں ۔چالیس لاکھ افراد کے لیے صرف چالیس لاکھ پیمپرز؟۔ کیا لانگ مارچ کے شُرکاء دائمی قبض کا شکار تھے۔
Long March
بہر حال میں جو بہت پریشان تھی کہ لانگ مارچ میں ہدیہ نہیں ڈالا ، مطمعن ہو گئی ۔ہوا یوں کہ اِدھر میں نے قاسمی صاحب کا کالم پڑھا ، اُدھر میری بہو اپنے بیٹے (میرے پوتے) کے لیے پیمپرز لے آئی اور میں نے نظر بچا کر سبھی اُڑا لیے۔وہ سارے گھر میں پیمپرز تلاش کرتی پھری لیکن یہ بھی میرے مُرشد کی کرامت کا کرشمہ ہے کہ جہاں میں نے پیمپرز چھُپائے ، وہاں پہنچ کر اُس کی بینائی چلی جاتی ۔میں یہ پیمپرز مُرشد کو ہدیہ نہیں کر سکی کیونکہ میںنے بوجہ حسد قاسمی صاحب سے رابطہ کر کے یہ نہیں پوچھا کہ پیمپرز کہاں پہنچانے ہیں اِس لیے پیمپرز ہدیہ نہ کرنے کا سارا گناہ بھی قاسمی صاحب کے سر ہی ہے۔
ویسے اوّل اوّل جب مُرشد نے زیورات ہدیہ کرنے کا حکم صادر فرمایا تو میں عجیب مخمصے کا شکار ہو گئی ۔میرا دایاں ہاتھ زیورات کی طرف بڑھتا تو بایاں پوری شدّت سے اُسے واپس کھینچ لیتا۔ بعض اوقات تویہ سوچ کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے کہ کیا مُرشد سے عقیدت اتنی ہی کم ہے کہ اُسے زیورات پر قُربان کیا جا سکے ؟۔میں کئی بار حوصلہ کرکے اُٹھی لیکن اندر بیٹھے شیطانِ رجیم نے دھکا دے کر گرا دیا۔ اِس دوران میں نے ڈرتے ڈرتے اپنے میاں سے گاڑی ہدیہ کرنے کو بھی کہا لیکن اُنہوں نے وہ بے نقط سُنائیں کہ میں خود کُشی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگی ۔شکر ہے کہ میاں نے مُرشد کے بارے میں کچھ نہیں کہا ورنہ پتہ نہیں بات کہاں تک جا پہنچتی۔
میرا ڈولتا ایمان مُرشد کے کشف و کرامات نے اُس وقت مضبوط کر دیا جب دور بیٹھے مُرشد نے اپنی اِس جھلّی مریدنی کے دِل کا حال جانتے ہوئے ایم کیو ایم کے کراچی والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عورتوں کو زیور اپنے خاوندوں سے بھی پیارے ہوتے ہیں۔وہ خاوند چھوڑ سکتی ہیں ، زیور نہیں۔میں چشمِ تصور سے دیکھ رہی ہوں کہ مُرشد کی اہلیہ محترمہ نے بھی زیور دیتے وقت یہ فرمایا ہو گا کہ اگر آپ ایک عام انسان ہوتے تو میں خُلح لے کر زیورات بچا لیتی لیکن آپ چونکہ ولیٔ کامل ،مجددِ وقت اور مجتہد العصر ہیں اِس لیے آپ کی بارگاہِ عقیدت پر زیورات قُربان۔شیطان ملک جیسے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مُرشد کی اہلیہ محترمہ کے زیورات کی کشش نے جب زیورات کے انبار لگا دیئے تو مُرشد نے مُسکراتے ہوئے اہلیہ کو فرمایا کہ تُم اللہ والوں کی رمز کو کیا جانو۔دیکھو ! میں نے تمہارے زیورات کو ہزار گُنا کر دیا ۔اب اِنہیں سنبھالو اور عیش کرو۔
سبھی نے دیکھا کہ کامیاب دھرنے کے بعد مُرشد فتح کے گیتوں کی گونج میں لاہور تشریف بھی لے آئے لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے پیٹ میں اُٹھتے مروڑ ابھی تک ختم نہیں ہوئے ۔ٹاک شوز میںچُن چُن کے ایسے مہمانوں کو بُلایا جا رہا ہے جو یہ ثابت کرنے کی سعیٔ لا حاصل کر رہے ہیں کہ شیخ الاسلام صاحب نے ”کھایا پیا کچھ نہیں ، گلاس توڑا بارہ آنے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے اُن کا ایک مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا اور کیے گئے معاہدے میں کوئی ایک شق بھی ایسی نہیں جس کی آئین میں صراحت موجود نہ ہو۔
Election Commission
الیکشن کمشن تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے معرضِ وجود میں آیااور آئین کے مطابق صدر ، وزیرِ اعظم اور عدلیہ سمیت کوئی بھی اسے ختم نہیں کر سکتا۔اِس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ الیکشن کمشن کے اربابِ اختیار خود ہی مستعفی ہو جائیں۔الیکشن کمشن ہی کی طرح سے نگران حکومت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی تمام سیاسی پارٹیوں کی مشاورت سے معرضِ وجود میں آنے والی ہے ۔مولانا صاحب کا عدلیہ اور فوج سے مشاورت کا مطالبہ تسلیم کیا گیا نہ الیکشن کمشن کی تشکیلِ نَو کا ۔اسمبلیاں توڑی گئیں نہ صدر کو گھر بھیجا گیا ۔اُمیدواروں کی سکروٹنی پہلے تیرہ چودہ دنوں میں کی جاتی تھی اب ایک ماہ کی مدّت مقرر کردی گئی لیکن اِس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جو فی الحال ممکن نہیں۔
سب کچھ بجا لیکن یہ تو بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ شیخ الاسلام نے کم از کم یہ تو ثابت کر دیا کہ وہ جب چاہیں حکومت کو گھُٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔اب اگر حکومت یہ کہتے ہوئے کہ”معاہدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے معاہدے سے مُکر جاتی ہے تو اِس میں بھلا شیخ الاسلام کا کیا قصور۔
ویسے بھی مُرشد کو دھرنے کے دوران ہی یہ بشارت ہو گئی تھی کہ جس معاملے میں چوہدری شجاعت حسین ملوث ہو ں اُس میں فریقِ دوم کے لیے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے راہِ فراراختیار کر جانے میں ہی عافیت ہے ۔کیونکہ ایسے معاملات میں فریقِ دوم کا انجام ہمیشہ اکبر بُگتی اور لال مسجد کے باسیوں جیسا ہوتا ہے ۔ مُرشد نے تو جنابِ آصف زرداری کو طلب کیا تھا لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ چوہدری شجاعت فرشتۂ اجل بن کر نمودار ہو گئے ہیں تو انہوں نے بھی بھلا بُرا معاہدہ کرنے میں ہی عافیت جانی کیونکہ جان بچانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
دُشمنانِ ملک و ملّت تو خیر ہر گز نہیں مانیں گے لیکن یہ عین حقیقت ہے کہ مُرشد نے اپنے اقوال ، افعال اور اعمال سے یہ ثابت کر دیا کہ شیخ الاسلام کہلوانا صرف اُنہی کو زیبا ہے ۔سارا میڈیا اُن کے خلاف دِن رات زہر اُگلتا رہا اور حضرت بار بار بلکہ ہزار بار اُن کا شکریہ ادا کرتے رہے ۔اُن کا دل اپنے محفوظ بنکر میں بھی اپنے عقیدت مند مردوں ، عورتوں اور شیر خوار بچوں کی بدترین حالت دیکھ کر خون کے آنسو روتا رہا۔ اسی بنا پر وہ جب بھی خطاب کے لیے آتے تو دورانِ خطاب اُن کی آنکھیں بار بار ڈبڈباجاتیں۔کچھ نا ہنجار کہتے ہیں کہ کربلا میںتوحضرت امام حسین اپنے احباب جیسے خیمے میں ہی مقیم تھے جبکہ یزیدیت کے خلاف نبرد آزما شیخ الاسلام تو اپنے بُلٹ اور بم پروف بنکر میں تشریف فرما تھے اورعقیدت مند لہو جماتی سردی میں کھُلے آسمان کے نیچے۔
اِن بدبختوں سے کوئی پوچھے کہ کیا حسین کے دَور میں بُلٹ پروف بنکر ہوا کرتے تھے۔اور کیا یہ ممکن تھا کہ چالیس لاکھ کا مجمع حضرت شیخ الاسلام کے بنکر میں سما جاتا۔اب اگر سبھی عقیدت مندوں کے لیے بارہ ، بارہ کروڑ کے بنکر بنائے جاتے تو اِس منصوبے پر کتنے عشروں میں عمل در آمد ہو تا؟۔اوراگر امریکہ مُرشد کے کہنے پر اِس منصوبے پر اربوں کھربوں ڈالر صرف کر دیتا تو کیا امریکی معیشت کا دیوالیہ نہ نکل جاتا؟۔ اسی لیے مُرشد نے چارو ناچار صرف اپنے خاندان کو ہی بنکر میں محفوظ کر لیا۔ویسے بھی جب عقیدت مندوں کو پریشانی نہیں تو دوسروں کے پیٹ میں کیوں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔
کہا گیا کہ حضرت امام حسین نے تو یزید سے معاہدہ کرنے کی بجائے شہادت کو ترجیح دی ، یہ کیسے حسینیت کے پیروکار ہیں جو نہ صرف یزیدیت کے علمبرداروں سے معاہدہ کر رہے ہیں بلکہ اُنکی تعریف میں رطب اللساں بھی ہیں؟۔ایسی باتیں کرنے والے کج فہم نہیں جانتے کہ جب اللہ چاہے توکعبے کوصنم خانوں سے بھی محافظ مل جایا کرتے ہیں۔
Yazid Army
مُرشد کو یقیناََ بشارت مل چُکی ہو گی کہ یہی یزیدی فوج کل حسینیت کی علمبردار ہو گی۔اسی لیے اُنہوں نے کھُلے دل سے اُن کی تعریف کی اور چونکہ اُنہیں شیطان ملک کی بدنیتی کا پتہ تھا اِس لیے اُنہوں نے اُسے جی بھر کے لعن طعن کی اور جوتے کی نوک پر رکھااور ایسا کرنے کا اُنہیں حق بھی تھاکیونکہ اسلام اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی اجازت دیتا ہے البتہ معاف کر دینے کو بہتر گردانا گیا ہے۔اسی لیے جہاں شیخ الاسلام نے بدتمیز الیکٹرانک میڈیا کو معاف فرمایا وہیں شیطان ملک کو اُس کی حیثیت یاد دلا دی۔
مجمعے کو چالیس لاکھ تسلیم نہ کرنے والوں کے بارے میںتو مُرشد نے خود ہی فرما دیا کہ جھوٹے پر اللہ اور رسولۖ کی ہزار بارلعنت لیکن مُرشد خواہ ناراض ہی کیوں نہ ہو جائیں ، اب میں افشائے حقیقت سے باز نہیں رہ سکتی ۔ یہ بجاکہ مُرشد اپنے ساتھ واقعی چالیس ہزار عقیدت مندوں کو ہی لے کر گئے ۔جس کی واحد وجہ چھوٹے سے اسلام آباد میں جگہ کی تنگی تھی۔
باقی کروڑوں روتے کُرلاتے عقیدت مندوں کو اُنہوں نے حکم دیا کہ وہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر لانگ مارچ میں شریک ہوں ۔اِس لحاظ سے تعداد کسی بھی صورت میں نو ، دس کروڑسے کم نہیں تھی پھر بھی مُرشد نے انتہائی کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے محض چالیس لاکھ پر ہی اکتفا کیا۔