قارئین جب بھی ہم قلم اٹھاتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ آج تو اپنے ملک کے حالات پر کچھ اچھا لکھیں ہمارے پڑھنے والے قارئین کو کچھ پازیٹو(Positive ) بتائیں کچھ اچھا سنائیں لیکن جب لکھنے بیٹھتے ہیں تو یقین جانیئے پورا پاکستان کھنگال لیتے ہیں لیکن کہی کچھ اچھا نہیں ملتا خاص کر موجودہ صورتحال کے پیش نظر جس طرح ملک کے حالات چل رہے ہیں اس پر تو جنرل مشرف کی طرح بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ابھی کچھ دنوں پہلے ٹی وی پر پاکستان فلم انڈسٹری کے لازاوال کردار بے مثال ہیروں محمد علی کی فلم دیکھنے کا موقع ملا جس میں وہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر اپنی فلمی زندگی کا مشہور ڈائیلاگ ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں جج صاحب مجھے میری زندگی کے بیس سال واپس کر و مجھے میرے بیس سال کون واپس کریگا ۔۔۔عدالت کے کٹہرے میں کھڑے شخص کے الفاظ سن کر جج صاحب افسوس کے عالم میں خاموش افسردہ دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ گزرہ ہوا وقت ایک بار چلا جائے تو وہ واپس لوٹ کر کبھی نہیں آتا۔جسکا پچھتاوہ زندگی بھر درد ناک احساس کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔پاکستان کی تاریخ بھی اس درد ناک احساس کے ساتھ جڑی ہے اور آج ہم ایک من الحث القوم اس کی یہ درد ناک کیفیت کو جاننے اور سمجھنے سے قاصر ہیں ۔جو اپنے اندر سمائی 18 کروڑ عوام کے سامنے چیخ چیخ کر کہے رہاہے مجھے میری زندگی کے 65 سال واپس کرو مجھے میرے 65 سال کون واپس کریگا۔وہ 65 سال جو اس ملک کے نام نہاد سیاستدانوں / حکمرانوں نے جمہوریت کے نام پر مذہب کے نام پر اور جانے کس کس نام پر برباد کردیئے۔
سیاست دانوں سے لیکر جوانی کی طاقت میں مغرور میڈیا تک سب اپنے اپنے فلسفے بنا کر ملک و قوم پر تھوپنا چاہتے ہیں ملکی خدمت کے دعویدار یہ عناصر آج تک ملکی بقاء سلامتی اور عوامی بھلائی جیساکردار نبھانے میں ناکام رہے ہیںبرعکس اس کہ آج یہی میڈیا اُن سیاست دانوں کو کلیئرنس سرٹیفیکٹ دیتا نظر آتا ہے جنھیں عوام کئی بار بھگت چکی ہیں۔ہمارا آزاد میڈیا جس طرح جنرل مشرف کے پیچھے ہاتھ دوھ کر پڑا تھا کاش اسی طرح اس ملک کولوٹنے والے وڈیروں،جاگیرداروں،سرمایہ داروں، مفادپرستوں کے پیچھے پڑجاتا تو شاید آج ملک وقوم کی تقدیر بدل چکی ہوتی صرف نام کی بے معنی جمہوریت کے بجائے اگر عوامی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے پورے پاکستان میں لوکل گورنمنٹ بحال کرانے میں اپنا کردار ادا کرتا تو آج غریب عوام کے کئی دیرنہ مسائل کا حل نکل چکا ہوتالیکن یہاں تو ہرطرف الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور سب اس بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دوہتے نظر آتے ہیں۔آج یہ ملک جس طرح سسک رہا ہے بلک رہا ہے تڑپ رہا ہے اس کی یہ آہ بکا کوئی سننے والا نہیں اس کا یہ درد کوئی سمجھنے والا نہیں ۔ معدنیات سے مالا مال یہ ملک آج 65 سال گزر جانے کے بعد بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے قاصر ہے مزید یہ کہ ہر سطح پر صورتحال ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے۔چاہے وہ ریاستی ادارے ہوں یا پھر معاشی استحکام کے ذرائع سب تباہی کے دہانے پر کھڑے اپنی بد حالی پر رو رہے ہیں۔
قارئین اسے اس حال میں پہنچانے کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں جو اس ملک کی تقدیر چوروں لٹیروں کے ہاتھوں میں بخوشی بھنگڑے ڈالتے تھما دیتے ہیں۔ جو جمہوریت کا سرٹیفیکٹ لئیے اسمبلیوں کے اعوانوں میں پہنچ کر کرپشن کرپشن کھیلتے ہیں اور ملک و قوم کی رسوائی کا باعث بنتے ہیں ۔باوجود اسکے کہ یہ سارا کھیل ہمارے سامنے ہی کھیلا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہم اِن نادہندئوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر پھر سے ملک و قوم کی تقدیر سے کھیلنے کا مواقع فراہم کردیتے ہیں 65 سالوں سے ہم یہی کرتے آرہے ہیں اور نجانے کب تک ہم یہ کرتے رہیں گے ہمیں اب اس طرف سوچنا ہوگاان ذمہ داروں کا تعین کر کے ان سے چھٹکارہ پانا ہوگا آخر کب تک ہم اس جعلی بدنیتی پر مبنی نام نہاد جمہوریت کے جھانسے میں آتے رہیں گے سیاست دانوں کے سحر میں مبتلا یہ قوم کب اپنا راستہ خود تلاش کریگی ۔ یاد ریکھیں جب تک کہ ہم ان نام نہاد نجات دہندئوں سے چھٹکارہ نہ پالیں گے تب تک ہم اور ہمارا پیارا پاکستان اسی طرح بلکہ شاید اس سے کئی زیادہ بد تر حالات سے دوچار رہیں گے۔ اگر ہم نے وقت پر بحیثیت قوم اپنا فرض اور اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کیا تو یہ مفاد پرست ٹولے کی شکل میں موجود لوگ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی برباد کر دینگے جوکہ کٹہرے میں کھڑے اس شخص کی طرح چلاتے رہیں گے اور اِن کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔