آج اردو لنک کے فورم میں لکھتے لکھتے لیٹ ہو گئی ـ اکثر ایساہی ہوتا ہے بس مکمل کر کے یہ کرتی ہوں وہ کرتی ہوں یہی سوچتے سوچتے کئی صبحیں دوپہر اور کئی دوپہر شاموں میں بدلی ہیںـ آج بھی وہی ہوا ناشتہ کھانا کچھ بھی نہیںـ
Eiffel Tower and Seine River – Paris
آج جمعہ ہے میرے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ جمعے کو میں ٹاؤن سے باہر ایک سنٹر میں جاتی ہوںـ یہاں سنٹر کے ساتھ ہی وہ نہر ہےـ جو آگے جا کے دریاۓ سین میں مل جاتی ہےـ دریا سین فرانس پیرس کا مشہور دریا جو ایفل ٹاورکے سامنے بہتا ہے اور پوری دنیا سے آئے ہوئے سیاح پیرس میں شامیں اور راتیں طلسمی ماحول میں گزارتے ہیں ـ وہاں کم از کم ایک بار تو ضرور اس دریا میں دھیمی روشنی میں بھیگتی ہوئی ایک رات تو پُرسکون ماحول میں گزارنا پسند کرتے ہیں ـ یہاں بڑی بڑی بوٹس کھڑی ہیں ـ جن میں اب شادی بیاہ بھی ارینج کیے جاتے ہیں ـ طلسماتی پانی میں ڈوبتے ابھرتے رنگوں کی قوس و قزح اور پیرس کی حسین شام پھران خوبصورت کشتیوں کا دلرُبا ہوشرُبا ماحول سیاحوں کو دریاۓ سین کی سیر کبھی بھولنے نہیں دیتا ـ اور نہ ہی کینڈل لایٹ ڈنر ـ
جی ہاں دریا سے متصل نہر ہی ہے جو اس سنٹر کے بالکل ساتھ بہتی ہے ـ پانی سے لبالب بھری ہوئی یہ نہر ذرائع آمد ورفت کے علاوہ سامان رسد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانے کیلیۓ ٹریفک کی اندرون پیرس سست ہوتی رفتار کی وجہ سے انتہائی مفید اور کا رآمد ذریعہ ہےـ
Pigeons in Paris
یہاں مجھے2 سے 5 بجے تک رہنا ہے ـ لہٰذا کمپویٹر کو بند کیا اور فٹافٹ سینڈوچ بنایا سوچا وہیں نہر کنارے بیٹھ کر قدرتی ماحول کی خوبصورتی کو اپنی روح میں اتارتے ہوئے برنچ ہو جائے گا ـ نہر کنارے پہنچ کر ایک پیاری سی جگہ جہاں سورج خوش نصیبی سے پوری آب و تاب کے ساتھ چمک دمک رہا تھا ـ میں بڑے اطمینان سے وہاں بیٹھی اور کتاب بھی نکالی اور ساتھ ہی سینڈوچ بھی ابھی کتاب کی طرف نظریں جما کر سینڈوچ پکڑا ہی تھا ـ کہ ایک صحتمند کبوتر پاؤں میں آکے بیٹھ گیا ـ میں اپنے گھر کبوتروں کو بہت کچھ کھانے کے لیۓ ڈالتی تھی ـ
لیکن جب برڈ فلو پھیلا تو ڈاکٹرز نے سختی سے تاکید کی اپنے گھروں میں اس قسم کی کوئی نیکی آپ کی اور اہلِ خانہ کی جان کے لیۓ وبال کا باعث بن سکتی ہے ـ لہٰذا اس کے بعد سے بچوں کو بھی اور خود بھی پرندوں کو کھانا ڈالنا ترک کر دیا ـ اب جو دیکھا تو وہی ڈاکٹر کی ہدایت دماغ میں سرسرائی لیکن نظریں ایکدم اس کبوتر کی ٹانگوں پے مرکوز ہوئیں تو دائیں بائیں دیکھنا بھول گئیں ـ اسکی ٹانگ میں کوئی مسئلہ تھا یعنی وہ اڑ نہیں سکتا تھا ـ کچھ ہی سینٹی میٹرز جست لگا رہا تھا ـ لیکن اڑنے سے معذور تھا ـ یہ دیکھ کر ساری نصیحتیں ساری ہدایتیں ترک کر کے وہی انسانی ہمدردی کا جذبہ عود آیا ٬ اور سینڈوچ توڑ کر اس کی جانب پھینکا ـ ابھی وہ خوشی سے جست لگا کر سینڈوچ کو چونچ میں دبانے لگا ہی تھا!! کہ ایکدم پورا غول کا غول کبوتروں کا چشمِ زدن میں کہیں سے نمودار ہوا ـ ایک لحظہ تو میں ٹھٹھکی یوں ہی کالا آسمان لگا جیسے ایک بار پھر کہیں سے ابابیلیں جھنڈ کے جھنڈ نمودار ہو رہی ہوں ـ ایک سے ایک ہٹا کٹا کبوتر تھا ـ وہ معذور کچھ ان سب سے کمزور کھانے کے لیۓ آگے بڑہا لیکن بعد میں آنے والے زیادہ چتر ثابت ہوئے ـ وہ خوراک حاصل کرنے میں ناکام رہا اور بعد میں آنے والے اچک اچک کر ختم بھی کر بیٹھے ـ اس کو تلاش کرنا چاہ رہی تھی لیکن ایک جیسے پر ایک جیسے رنگ ایک جیسی جسامت اور صورت مجھے قدرے دقت ہوئی ـ
Pigeons – half foot will travel
کافی صبر آزما کوشش کے بعد میں اس کو کھوجنے میں کامیاب ہو گئی ـ ان کے ہجوم میں گم ان جیسا ہی دکھائی دے رہا تھا ـ تاہم میں نے نگاہیں ذرا عقابی بنا کر ان سب کو تِرچھی نظروں سے گھورا کہ شائد شرم کر لیں اور اس بیچارے کو کوئی ٹکڑا کھا لینے دیں لیکن کہاں ـ سب کے سب ہی گھاگ شکاری اور ماہر کھلاڑی کی مانند نوچنے کھسوٹنے میں مشغول تھے ـ یہ نظارہ مجھے بالکل اپنی دنیا جیسا لگا جہاں ہم لوگ ایسے ہی کرنے لگ گئے کہ ہر موقعے کو خواہ خوشی کا ہو یا افسوس کا ہمارا انتخاب بھرا پیٹ اور دولت مند انسان ہی ہوتا ہے ـ بھرے پیٹ کو بار بار کھلاؤ ـ اور جو واقعی ضرورت مند ہے ـ وہ کہیں دور حسرت سے اپنے بچوں کے لیۓ دال روٹی کا بندو بست کرنے سے قاصر ہے ـ اور جب بے بسی حد سے بڑہتی ہے تو خود پر تیل چھڑک کر وہ اپنی جان کو اس بحرِظلمات کے حوالے کر دیتا ہے ـ یہاں بھی منظر میری دنیا کا تھا جو موٹے تازہ زیادہ تھے وہی اِس کھانے کو کھا رہے تھے ـ اور جو ضرورت مند تھا وہ میری دنیا کے غریب کی طرح بھوکا پیاسا حسرت و یاس کی تصویر بنے ان کو بھرے پیٹ میں مزید انڈیلتے خاموشی سے دیکھ رہا تھا ـ
پرندے بھی اب کیا ہمیں دیکھ دیکھ کر سیانے ہو گئے ـ وہاں بھی کوئی طاقتور اور کوئی مجبور اور لاچار مجبور بن گیا ـ کیا وہ بھی طبقاتی نظام میں بٹ کر ایک قسم کو انسانوں کی طرح بھوکا مفلوک الحال رکھیں گے ـ وہ ذہنی غلامی میں محصور رہ کر کامیابی حاصل کرنے کو اپنا مقدر سمجھے گی؟ کمزور معذور کبوتر خاموش سب کو اپنا حصہ کھاتے دیکھ رہا تھا ـ اور یہ سب دیکھ کر مجھے افسوس ہو رہا تھا ـ میں اس ہجوم سے باہر نکل کر آگے بڑہی اور اس کی جانب پُر امید نظروں سے دیکھا کہ شائد میری نظروں کا خاموش پیغام سمجھ لے ـ جیسے وہ ٹیلی پیتھی جانتا ہو ـ
سوچا اگر تو یہ سمجھدار ہو گا تو میرے پیچھے پیچھے آجائے گا ـ اور میں اس کو کچھ کھلانے میں کامیاب ہو جاؤں گی ـ
یہ سوچ کر میں بنچ سے اٹھی اور آگے کی سمت بڑھ گئی جس سمت سورج کی تیز پیاری روشنی اور حدت تھی ـ میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب وہ سب پھر نجانے کہاں چھپ گئے٬ سچ میں وہ اکیلا تن تنہا میرے تعاقب میں یا پھر رزق کی تلاش میں چلا آ رہا تھا ـ میں نے بنچ پے بیٹھ کر جلدی سے ایک بڑا ٹکڑا کاٹا اور اسکی جانب بڑہایا ـ
اوہ میرے خدا
ایک بار پھر سے وہی ڈرامہ ہوا جس کا ہدائیتکار نجانے کونسا پسِ چلمن کبوتر تھا ـ
ابھی وہ ٹکڑا درست طریقے سے زمین پے پہنچ ہی نہیں تھا ـ کہ لٹیروں چوروں غاصبوں کی طرح پھر سے سب نے وہ کھانا چُگ لیا ـ اور پھر سے میں اس کبوتر کو تلاش کرنے لگی اب مجھے یوں لگا جیسےوہ درمیان پُرسکون ہے ـ
اُس نے کوئی مزاحمت نہیں کی نہ ہی بھوک کو ختم کرنے کیلیۓ کسی جدو جہد کی کوشش ـ حالنکہ میرے حساب سے وہ اڑ کر اپنی خوراک تلاش نہیں کر سکتا تھا٬ اس کی زندگی کا دارو مدار انہیں ٹکڑوں پر ہو گا٬ جو کوئی وہاں اس کو رحم کھا کر عنایت کر دیتا ہو گا ـ ایسی صورت حال میں تو ہر جاندار جان کی بازی لڑا دیتا ہے خوراک کے حصول کے لیۓ ـ لیکن اس کبوتر کا سکون مجھے شک و شبہے میں مبتلا کر گیا ـ کہ یہ
اتنا بے حس کیوں ہے، یا پھر مجھے وہ ایک لمحے کو کوئی چالاک انسان لگا جو اس وحشی بھاری بھرکم جھنڈ میں زندہ رہنے کے لیے کسی ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا ہے ـ جس کا کام ہے اپنی بے بسی دکھا کر ہمدردی حاصل کرنا ـ اور پھر جو خوراک ملے ان سب کو دعوتِ شیراز یا پھر من و سلوٰیٰ کی صورت ان سب کو کھلانےـ
تاکہ وہ ان سے ہمدردی اور دوستی کے نام پر کوئی مضبوط تعلق مرتے دم تک حاصل کر سکے ـ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اپنی اس معذوری کے ساتھ تن تنہا نہ رہ جائے ـ شائدوہ جان گیا تھا اس کے یہ دوست یا کنبے کے افراد صرف اسی صورت اس کو اپنے ساتھ رکھ سکتے تھے ـ ورنہ تو ان کے لیۓ وہ بیکار تھا ـ یعنی !! اِس ہاتھ دو اُس ہاتھ لو ـ والا سسٹم اب ان ننھی سی جانوں نے بھی سیکھ لیا تھا ـ
river seine – reflection
میں اس وقت سے الجھی ہوئی نہر کنارے خوبصورت موسم کو بھول کر اسی فلاسفی کو سوچ رہی ہوں ـ مگر یہ گتھی مسئلہ فیثا غورث بن کر سلجھنے کا نام نہیں لے رہا ہےـ واقعی اب پرندے بھی آسمانوں پر محو پرواز ہوتے ہوئے ہوئے انسانوں کی طرز پر کوئی ملک بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ـ کسی سیاسی پارٹی کا حصہ ہیں ـ ورنہ تو ان بے ضرر سادہ سے پربندوں کو اللہ ہو اللہ ہو کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا ـ صبح دم ان کی پیاری چہکاریں اللہ کی ثنا کرتی صدیوں سے اس دنیا کی ملاوٹ زدہ فضا کو ہر صبح پاک کر کے پاکیزہ اور مصفا دن کو شروع کر کے ابن آدم کے حوالے کرتے تھے ـ پھر آج کا یہ نیا سبق یہ نئی سیاست ان کو کس نے سکھائی؟
آپ کیا سوچتے ہیں ، واقعی جو میں نے دیکھا جیسے بیان کیا آپ کو اس میں سیاست لگی؟ یا پھر میں اس کی معذوری اور اسکے ایجنٹ ہونے کو غلط انداز میں دیکھ رہی ہوں ؟ رائے میں ہو سکے تو جواب ضرور دیں ـ