جو قومیں اپنی ثقافت کو بھول جاتی ہیں ان کا دنیا میں کوئی نام لیوا نہیں رہتا کیوں کہ جن قوموں میں ان کی ثقافت زندہ نہیں رہتی ان کی دنیا میں شناخت ختم ہو جاتی ہے اورجب کسی قوم کی شناخت ختم ہو جائے تو پھر وہ قوم نیہں ایک بھیڑ جی ہاں ایک بھیڑ اور ہجوم بن کر ہی رہ جاتے ہیں ۔اور کوئی بھی ہجوم زیا دہ دیر تک اکھٹا نہیں رہ سکتا وہ بہت جلد منتشر ہو جایا کرتا ہے ۔اور یقین مانئے ہم لوگوں نے بہت تیزی کے ساتھ ایک قوم سے ہجوم بننے کا سفر طے کیا ہے ۔
ہم لوگ اس دنیا کی بھیڑ بھاڑ میں اس قدر مصروف ہو گئے کہ ہم کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ کب ہمارے بچوں نے اسلام علیکم کہنا چھوڑ دیا اور ہمارے گلی محلوں اور بازاروں میں کب ہیلو۔ہائے نے اسلام علیکم کی جگہ لے لی ۔بال ٹھاکرے کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان میں بسنت ہندو تہذیب کی فتح ہے۔یہ سچ ہے اور بہت بڑی حقیت بھی کہ ہم لوگ اس وقت گھٹنے گھٹنے بھارتی تہذیب میں دھنس چکے ہیں ۔پاکستان کا بچہ بچہ بھارتی شہریوں سے پہلے انڈین فلمیں دیکھتا ہے ہمارے ہر بچے کو ہندوؤ ں کے ایک ایک ایکٹر اور ایکٹریس کے نام حفظ ہیں ہماری زیادہ تر نوجوان نسل کو اتنا قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بارے علم نہیں جتنا وہ گاندھی اور نہرو کو جانتے ہیں ۔
اب ہمارے بچے بھی بھارتی بچوں کی طرح کشمیری مجاہدین کو،،آتنک وادی،، کہتے ہیں وہ بھی اب قسم کی جگہ سوگند کھاتے ہیں ،اور تو ان کو تو اب ساری مہا بھارت بھی زبانی یاد ہے ۔انہیں ،رام،کرشن ،ارجن،راون ،ہنو مان ،سیتا لکشمی،اور،کالی ماں ، کے بارے میں سب کچھ معلو م ہے،مگر اسلام کے بارے میں وہ مکہ مکرمہ کو مسلمانوںکا ویٹی کن سمجھتے ہیں،وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو دی مسلم لیڈر کہتے ہیں انہیں دوسرا کلمہ نہیں آتا یہاسلامی طریقے سے نماز نہیں پڑھ سکتے ،جنازے میں شریک نہیں ہو سکتے وضواور طہارت کے اصولوں سے نابلد ہیں کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہیں گھوم پھر کر کھانا کھاتے ہیں ،وہ اخلاقی پاپندیوں کو ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں ، کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ آج ہم اپنی نئی نسل کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں ان کو ہم کس دلدل میں دھکیل رہے ہیں جس سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
یہ سب کیسے ہوا کیوں ہوا اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں ،ہاں ہم سب ،جب ہم نے اپنے بچوں کے ہاتھوں سے سپارے ،اور قائد ے لے کر انہیں آزاد انسان بنانا شروع کر دیا ڈانٹ ڈپٹ کو ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی سمجھ کر تر ک کر دیا ،ان کے ہاتھوں میں آکسفوڑ ،پینگوئین کی کتابیں تھما دیں انہیں ،ڈی وی ڈی ،سی ڈی پلئیر ،وی سی آر،اور ڈش کے سامنے بٹھا دیا ،یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس کلچر میں زیادہ شہوت لذت اور زیادہ تھرل ہوتا ہے وہ بوسیدہ ،کمزور پینڈو ثقافت کو نگل جاتا ہے ۔آج ہم وہ نسل پیدا کر چکے ہیں جو ہماری نہیںجی ہاں آج ہم وہ نسل پیدا کرچکے ہیں جو جارج فلپ اور الزبتھ کی نسل ہے۔یاد رکھئے کہ ہنس کی چال چلنے والے کوئوں کو نہ ہنس قبول کرتے ہیں نہ کوے قبول کرتے ہیں ۔
یقین کیجئے ہم نے اب بھی توجہ نہ دی ،اگر ہم نے اب بھی اس خطرے کی بو نہ سونگھی تو اندیشہ ہے شائد آنے والے برسوں میں اس ملک میں بسنت کیساتھ ساتھ ہولی اور دیوالی کے تہوار بھی شروع ہو جائیں ہماری نئی نسلیں اشلوک پڑھنے اور اگنی کے گرد سات پھیرے لینے لگیں ۔یقین کیجئے جو قومیں اپنی ثقافت ،اپنی تہذیب اور اپنے نظریے کی حفاظت نہیں کر سکتیں وہ قومیں اپنی سرحدیں بھی زیادہ دیر محفوظ نہیں رکھ سکتیں جاگ جائیے خدا کے واسطے جاگ جا یئے ورنہ خدانہ کرے با ل ٹھاکرے جیسے لوگ لاہور میں بیٹھے ہوں گے اور آپ کی نسل ان کی آرتی اتار رہی ہو گی ۔