امریکا نے کہا ہے کہ اِسے پاکستان کی ضروریات کا پتہ ہے تاہم یہ ایران کے ساتھ گیس منصوبے کو کسی بھی حال میں اچھا آئیڈیا نہیں سمجھتاہے اور اِس کے ساتھ ہی اِس نے پاک ایران اِس معاہدے کو سپوتاژ نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دے ڈالیں ہیں اَب یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب امریکاہمارابڑاہمدرد اور خیر خواہ بھی بناپھر تاہے تو پھر یہ خود سے ہماری ضروریات کابروقت خیال کیوںنہیں کرتاہے …؟اور ہماری طلب پر ہمیں جھوٹی تسلیوں سے کیوں بہلاتا رہتاہے …؟ ایسے میں آج جب ہم نے اپنی ضروریات کے مطابق ایران سے معاہدہ کرلیاہے تو پھر اِسے ناگوار کیوں گزررہاہے …؟؟ اِس کی یہ دوستی تو ایسی ہی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے یہ ایک طرف ہم سے دوستی کا بھی دم بھرتاہے تو دوسری جانب ہم سے دشمنی بھی رکھتا ہے۔
بہر حال ..!یہ ایک خوش آئندامر ہے کہ ہماری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ایران سے تجارتی تعلقات کے متعلق امریکا کی اقتصادی پابندیوں کی دھمکیوں کو تو مستردکردیاہے اور بظاہر یہ بھی کہہ دیاہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ گیس منصوبہ بغیر کسی غیر ملکی دباؤکے مکمل کرے گااور ہر حال میں تہران کے ساتھ توانائی کے تمام منصوبوں کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا،ہمیں توانائی کے بحران کا سامنا ہے آج ہمیں توانائی جہاں سے بھی ملے گی ہم اِسے ہر صورت میں حاصل کریں گے اَب دیکھنایہ ہے کہ ہمارے حکمران اور ہماری وزارتِ خارجہ اپنے اِس کہے پر کب تک اور کتنا قائم رہتے ہیں…؟؟اور امریکا اپنی شاطرانہ چالوں اور ہمیں امداد اور بھیک کی لالچ دے کر اِس معاہدے کو ختم کرانے کے کیا کیاجتن کرتاہے…؟؟ یہ آئندہ دنوں میں واضح ہوجائے گا۔
ایسے میں امریکا کے اِس رویے کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایک حکایت یاد آگئی ہے جسے ہم اگلی سطور میں بیان کریں گے مگر اِس سے پہلے ہم یہاںیہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ ہماری مثال حکایت والے اُس گدھے کی سی ہے جس کا مالک اِنتہائی چالاک لالچی اور شاطر قسم کا ہے جو ہرروزاپنے گدھے کو صرف صبح چارہ دیتاہے اور باقی دو وقت کا چارہ ایک ڈنڈے کے ساتھ باندھ کر گدھے کے منہ کے آگے لٹکا دیتاہے اورخود گدھے پربیٹھ کر دن بھر اُس سے محنت لیتارہتاہے یوں بیچارہ گدھا دوپہر سے شام تک اُس چارے کی جستجومیں منہمک رہتاہے اور مالک کا کام بھی چلتارہتاہے باقی آپ سمجھدار ہیں خود جان لیں ہم یہاں کیاکہناچاہتے ہیں اور اِسی طرح کسی زمانے کی بات ہے کہ ایک باپ کے کئی بچے تھے جن کی کفالت کی ذمہ داری اِس کے کاندھوں پر تھی اِس کاذریعہ معاش سوائے ایک گدھا گاڑی کے اور کچھ نہیں تھا جب تک بچے چھوٹے تھے وہ جیسے تیسے اِنہیں روکھی سوکھی کھلاتارہااور اِن کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پوراکرتارہامگر جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے بھی جوان ہوتے رہے اور اِن کی ضروریات زندگی بھی بڑھتی رہیں تو اِن بچوں کے باپ نے سوچاکہ اَب چونکہ میں بوڑھاہورہاہے اِس سے اتناکام نہیں ہوپاتاکہ جس سے روزانہ کا گھرکا خرچ چل سکے گا لہذااِس نے اپنی بیوی (بچوں کی ماں )سے مشورہ کیا کہ سب سے بڑے بیٹے کو اپنے ساتھ کام پر لے جایاکرے گا تاکہ ہم دونوں باپ بیٹھے مل کر کام کریں گے تو آمدنی بھی کچھ بڑھے گی اور گھر کا خرچ بھی پوراہوسکے گا یوں یہ دونوں باپ بیٹے روزانہ صبح کام پرچلے جاتے اور شام کو اپنی محنت اور مشقت کے مطابق کماکر لاتے تو گھر کا خرچ پوراہوتارہا۔ ہاں البتہ! بیٹے کو باپ کے ساتھ کام پر جانے کی وجہ سے شام کو گھر میں آنے والی آمدنی میں قدرے اضافہ ضرور ہوگیاتھا جس میں سے بیوی کچھ خرچ کرتی تو اُسی آمدنی میں سے کچھ رقم بچابھی لیتی اور اِسی دوران اِس نے محلے میں ایک کمیٹی بھی ڈال لی تھی دن بھر محنت مشقت کرکے جب میاں بیوی سونے کے لئے جاتے توروزمرہ کی باتوں کے بعد دونوں یہ بات ضرور کرتے کہ اَب ہمارے بیٹے نے اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح نبھانی شروع کردی ہیں کل کو اگر ذراسے ہمارے مالی حالات بہتر ہوجائیں تو اِس کی شادی کردیں تو اور اچھاہوگا اِن میاں بیوی کا یہ روز کا معمول تھا کہ یہ سونے سے پہلے یہ بات ضرور کیاکرتے تھے اور اِن کا یہ محنتی بیٹا اِن کے منہ سے اپنی شادی سے متعلق کی جانے والی ساری باتیں سُن کر روز خوش ہوتااور اِسی خوشی کے عالم میں سوجاتا….اوراگلی صُبح تازہ دم ہوکر نیا جوش اور ولولہ لئے باپ کے ساتھ کام پر چل دیتا یوں یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلتارہااِس دوران اِس کی ماں کی کئی کمیٹیاں آئیں اور گئیں اور گھر کے مالی حالات پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگئے تھے۔
ایک رات جب خلافِ توقع میاں بیوی بات کئے بغیر سوگئے تو بیٹے کو تشویش لاحق ہوئی تواِس سے رہانہ گیااور اِس نے کروٹ بدل کر باپ اور ماں کو باآواز بلند مخاطب کیا اور اِنہیں سوتے سے اُٹھانے کے بعدبولا…”ابّا…ابّاکیا بات ہے…؟؟آج تم نے میری شادی کی بات نہیں کی…کروں نا میری شادی کی بات ….”اِس سے پہلے کہ بیٹااور کچھ بولتاباپ نے اِنہتائی غصے کی حالت میں بیٹے کو ددیکھااورغراکر کہا ” ابے سوجابے … آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے…اور تیرے کو اپنی شادی کی پڑی ہے …بڑاآیا ہے شادی والا…ہم تجھ کو سُنانے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں کہ تیری شادی کردیں گے تو ،تُواِسے سچ سمجھ رہاہے…جب تک میں تیرے لئے علیحدہ گدھاگاڑی نہیں خرید لیتا اُس وقت تک تیری کوئی شادی وادی نہیں ہوگی اور اَب جو تو نے آئندہ اپنی شادی کا سوچا اور مجھ کو کہا….”باپ کوغصے میں دیکھ کر بیٹا سہم سا گیااور پھر کروٹ بدل کر یہ سوچنے لگا چلوابّامیری شادی توکریں گے ناںمگرپہلے میرے لئے ایک اور گدھاگاڑی کابھی بندوبست کردیں گے پھرشادی بھی کردیں گے …”اور پھر بیٹاابّا کی طرف سے ایک اور خوشی کا عندیہ ملنے کے بعد دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا سوگیایہ جانے بغیر کے ابّا اپنے اِ س ارادے کو بھی مستقبل قریب میں پوراکرتے ہیں کہ نہیں….یااِنہوں نے اِسے خوش کرنے کے لئے یہ کہا ہے۔
قارئین حضرات ..!آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ آج امریکاکے نزدیک ہماری مثال حکایت والے اُس گدھے اور اِس بیٹے جیسی ہے جو دن بھر ڈنڈے کے ساتھ بندھے چارے کے حصول کے خاطر دوڑتارہتاہے مگر اِسے وہ حاصل نہیں ہوتا اوراُس بیٹے کی طرح ہے جواپنی شادی اور علیحدہ گدھاگاڑی کے چکر میں دن رات محنت کرکے اپنا وجود ہلکان کئے دے رہاہے مگر اِن دونوں کے حصے میں اپنے کفیل سے سوائے ڈانٹ ڈپٹ ،مار اور پھٹکار اور جھوٹی تسلیوں کے اورکچھ نہیں آتاہے اوراِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کا رویہ بھی ہمارے ساتھ گدھے کے مالک اور بیٹے کے باپ کی طرح کا ہے جو ہمیںگھاس کی گڈی دیکھاکر اور ہمیں خوشیاں دینے کا جھوٹا وعدہ کرکے دن بھر ہم سے اپنے مطلب کام تو لیتاہے مگر نہ تو ہمیں ٹھیک طرح کھانا دیتاہے اور نہ ہی خوشیاں….. اور جہاں سے بھی ہمیں ضروریات پوری ہورہی ہوتیں ہیں اِن میں بھی روڑے اٹکاتاہے اَب یہ بات تو ہمارے حکمرانوں کو سمجھنی چاہئے کہ وہ امریکا کی کسی بھی ایسی دھمکی میں نہ آئیں جس کی وجہ سے ہماری ترقی اور خوشخالی کی راہیں بندہوجائیں اور یہ اپنے مفادات کے لئے ہمیں استعمال کرتا رہے۔تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم