امریکا کے صدارتی انتخاب میں گدھے اور ہاتھی کی انتخابی ریس میں گدھا ایک بار پھر جیتے میں کامیاب ہو گیا۔ وائٹ ہائوس تک پہنچنے کی دوڑ میں گدھے کی نمائندگی بارک اوباما جبکہ ہاتھی کی مٹ رومنی کر رہے تھے۔ انتخابی ریس کے دن تک دونوں کے مابین انتہائی سخت مقابلے کی پیشنگوئی کی جا رہی تھی لیکن بارک اوباما کا گدھا واضح سبقت کے ساتھ یہ ریس جیتنے میں کامیاب رہا۔ مغرب کو گدھے میں کوئی مضحکہ خیز بات نظر نہیں آتی۔
فرانسیسی مفکر اور انشائیہ نگار مونتین اس جانور کے اوصافِ حمیدہ کا اس قدر معترف تھا کہ اُسکے بقول روئے زمین پر گدھے سے زیادہ پُراعتماد، مستقل مزاج، دنیا کو حقارت سے دیکھنے والا اور اپنے ہی دھیان اور دھن میں مگن رہنے والا کوئی ذی روح نہیں ملے گا۔ ہم ایشیائی لوگ گدھے کو صرف بوجھ اُٹھانے والا جانور سمجھتے ہیں جبکہ امریکا میں اسے دانشور سمجھا جاتا ہے۔ امریکا کی سیاست میں گدھے اور ہاتھی کا اتنا ہی عمل دخل ہے جتنا ہماری سیاست میں ”لوٹے” کا ہے۔ امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو یہ جانور اتنے پسند ہیں کہ انہوں نے انہیں اپنا انتخابی نشان تک چن لیا ہے جبکہ ہماری سیاسی جماعتیں لوٹے تو وافر مقدار میں اکٹھے کر لیتی ہیں مگر لوٹے کا انتخابی نشان لینا اپنی توہین سمجھتی ہیں۔
الیکشن کے موقع پر ہر پارٹی ان کی تلاش میں رہتی ہے اور دبی آواز میں کہہ رہی ہوتی ہے کہ لوٹے حاضر ہوں اور یہ بھنک پاتے ہی آواز کی طرف چل پڑتے ہیں مگر خود لوٹا کہلانا پسند نہیں کرتے۔ جانوروں میں گدھا وہ خوش قسمت جانور ہے جسے سب سے زیادہ عزت امریکا میں ملی جبکہ ہم نے ہمیشہ اسے حماقت کا ترجمان ہی سمجھا۔ اس میں شک نہیں کہ گدھے بھی ”سیاسی” ہوتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انسان کو رموزِ سیاست سکھانے میں گدھے کا بہت بڑا کردار ہے۔ آپ نے یہ کہانی تو سُنی ہوگی کہ پرانے زمانے میں ایک آدمی کے پاس گدھا ہوا کرتا تھا اور وہ روزانہ اس پر بے انتہا نمک لاد کر دریا پار کیا کرتا مگر ایک دن گدھے کو سیاست سُوجھی اور اُس نے بوجھ ہلکا کرنے کیلئے دریا میں اُترتے ہی پانی میں ڈبکی لگا دی جس سے سارا نمک پانی میں بہہ گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ گدھا سیاست کی باریکیوں سے خوب واقف تھا مگر اسے سیاست میں باقاعدہ متعارف کرانے کا اعزاز ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی اُمیدوار اینڈریو جیکسن کو حاصل ہے۔
1828ء کے صدارتی انتخاب کے دوران اینڈریو جیکسن کو مخالفین نے جیک ایس یعنی گدھا یا احمق گدھا کہہ کر پکارنا شروع کر دیا تھا۔ جیکسن کو یہ لقب اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اسے انتخابی مہم کے دوران پوسٹروں پر چسپاں کر دیا جبکہ معروف کارٹونسٹ تھامس ناٹس نے 1870ء میں ایک کارٹون چھاپ کر گدھے کی مقبولیت میں مزید اضافہ کر دیا۔ اگلے انتخابات میں تھامس ناٹس نے ایک اور کارٹون میں گدھے کو شیر کی کھال پہنا دی جبکہ ہاتھی کو ری پبلکن ووٹ سے تشبیہ دی اور یوں گدھا ڈیموکریٹک پارٹی جبکہ ہاتھی ریپبلکن پارٹی کا انتخابی نشان بن گیا۔ امریکی سیاست پر ری پبلک اور ڈیموکریٹک پارٹی کے اثرات بہت گہرے ہیں اور یہی دونوں پارٹیاں ہمیشہ حکمرانی کرتی ہیں۔
America Flag
اگر امریکا میں بھی کثیر الجماعتی سیاسی نظام ہوتا تو پھر یقینا تمام جانوروں کی قسمت جاگ اُٹھتی مگر دو جماعتی نظام نے باقی جانوروں کے خواب چکنا چور کر دیئے ہیں۔ بلاشبہ گدھا امریکا کی سیاست میں ہاتھی سے پہلے متعارف ہوا مگر ہاتھی کو سب سے زیادہ بار انتخابی ریس جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔ امریکی انتخابی ریس صرف گدھے اور ہاتھی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس بار الیکشن کا جادو فرانس کے ایک ریسٹورنٹ تک بھی پہنچ گیا۔ ریسٹورنٹ میں اوباما برگر اور رومنی آملیٹ کے درمیان سب سے زیادہ بکنے کا زبردست مقابلہ دیکھنے میں آیا۔ کھانے پینے کے شوقین افراد نے صدارتی انتخاب سے پہلے ہی اپنا ووٹ اوباما کے حق میں دے کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ آئندہ کا حکمران برگر ہوگا جبکہ آملیٹ لوگوں کی بھوک کا مداوا نہ کر سکا۔ ہر چار سال بعد امریکا میں صدارتی انتخابات ہوتے ہیں۔
ایک صدر چاہے کتنا ہی مقبول اور قابل کیوں نہ ہو دو مرتبہ سے زائد اقتدار پر قابض نہیں ہو سکتا۔ اوباما سے پہلے ری پبلکن پارٹی کے چارج ڈبلیو بش اور ڈیموکریٹک پارٹی کے بل کلنٹن دو دو بار صدر منتخب ہو چکے ہیں جبکہ ری پبلکن پارٹی کے رونالڈ ریگن کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے۔ امریکا میں صدارتی انتخاب ہمیشہ نومبر کے پہلے منگل کو ہوتا ہے۔
اس رسم کا آغاز 1845ء میں ہوا تھا اور تب سے یہ سلسلہ جاری ہے جبکہ صدارتی انتخاب میں جو بھی اُمیدوار 270 الیکٹرول ووٹ حاصل کر لیتا ہے وہ صدر بن جاتا ہے۔ اوباما جیتے یا مٹ رومنی ہمیں اس سے کوئی سرکار نہیں کیونکہ امریکا کی پالیسی شخصی نہیں کہ صرف ایک شخص سے وہ بدل جائے بلکہ ان کی وہی پرانی پالیسی برقرار رہتی ہے، بہرحال گدھے کو جیت مبارک ہو۔