تاریخ کے صفحات کو اگر کھنگالا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے مادی آلائشوں اور اخلاقی رذائل کے باعث ابتری کا شکار رہا ہے معاشرے میں پھیلی ذہنی آلائشوں ،علمی کثافتوں اور فکری غلاظتوں کے سدِ باب کے لیے کسی نہ کسی عظیم ماں کی گود سے ایک ایسا مردِ قلندر جنم لیتا ہے جو پیغمبرانہ طریقہ سے معاشرے میں پھیلی فکری و علمی غلاظتوں کو سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی روشنی میں نظافتوں میں بدل دیتا ہے امت میں ایسے عبقری اور نابغہء روزگار ہستیاں صدیوں بعد جنم لیتی ہیں جن کے وجودِ مسعود سے علم و معرفت ،حکمت و دانش اور فہم و فراست کے وہ چراغ روشن ہو تے ہیں جن کی پھیلی ہوئی روشنی کو مشعلِ راہ بنا کر بھٹکی ہوئی امت منزل کا سُراغ پا لیتی ہے۔
اس کائناتِ رنگ و بو میں ہمیشہ اللہ کی یہ سنت جاری رہی کہ جب بھی باطل نے ظلم و استبداد اور قہر و جبر کی بھٹی گرم کی تو رحمت حق کے قطروں نے نہ صرف اس کو بجھایا بلکہ نورِ حق کی ایسی شمع روشن کی جن سے اطراف و اکناف روشن ہو گئے ،تاریخ انسانی پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس بات کی تائید ان واقعات سے اور بھی مضبوط ہو تی ہے کہ نمرود نے جب ظلم کی آگ جلائی تو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پیغامِ حق لے کر تشریف لائے ،فرعون نے ”اَنار َبُکُمُ الاعلیٰ ”کا نعرہ لگایا تو موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام پیغامِ حق لے کر تشریف لائے ،ابو جہل و ابو لہب نے سر زمین عرب پر ظلم و تشدد کی بھٹی جلائی تو پیغمبرِ انسانیت ، رسولِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رحمت کی ٹھنڈک سے ظلم و تشدد کی جلائی گئی بھٹی کو ٹھنڈا کیا۔
اب جبکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے تو اب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے صلحاء و علماء باطل کا سر کچلنے کے لیے وقتاََ فوقتاََ میدانِ عمل میں نکلتے رہے سلسلہ نبوت کے بعد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی بنیاد کی پہلی اینٹ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امامِ عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے رکھی اور وقت کے ظالم و جابر حکمران یزید کے سامنے مضبوط دیوار بن کے کھڑے ہو گئے اور عظیم مقصد کی خاطر اپنا سر تو نیزے کی اَ نی پر چڑھوا دیا مگر یزیدی سوچ کے سامنے اپنا مقدس سر جھکایا نہیں کیونکہ بقولِ شاعر قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد خلیفہ مامون معتصم با للہ جب اپنے عقائد باطلہ کی وجہ سے گمراہ ہوا تو اس وقت کے مردِ قلندر حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ حق کا چراغ لے کر تشریف لائے ،اسی طرح جب ہندوستان کی سرزمین پر شہنشاہ جلال الدین اکبر نے اپنے خود ساختہ ”دینِ الہی ”کی بنیاد پر اپنا تین نکاتی باطل نظریہ ”قومی حکومت کا قیام ،ہندوئوں سے مفاہمت ، متحدہ ہندوستان” وغیرہ پیش کیا تو اس کے جواب میں شیخِ سرہند امامِ ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے فوراََ اپنے تین نکات پر مشتمل”اسلامی حکومت کا قیام ، ہندوؤں کی عدم ِ مفاہمت اور اسلامی ہند کی تعمیر ”کا نظریاتی و فکری پروگرام پیش فرمایا۔
مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے خود ساختہ ”دین الہی”کو باطل مذہب قرار دینے والی عظیم علمی و روحانی شخصیت حضرت امام ربانی ، شیر یزدانی ،واقف رموز ِ آیاتِ قرآنی ، محبوبِ حقانی ،دو قومی نظریہ کے بانی حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی فاروقی ماتریدی رضی اللہ عنہ14 شوال 1563ء کو ہندوستان کے شہر سرہند میں پیدا ہوئے اور جس رات دنیائے علم کا مرد ِ قلندر متولد ہوا عجیب اتفاق ہے کہ اسی رات اکبر اعظم نے ایک خوفناک خواب دیکھا کہ ”شمال سے ایک تیز آندھی آئی اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اکبر اعظم کو تخت سمیت گرفت میں لیا ہوا ہے با دشاہ نے اپنے تئیں بہت کوشش کی کہ اس سے بچائو کی کوئی تدبیر نکل سکے لیکن کوئی بس نہ چل سکا تیز آندھی نے اکبر اعظم کو تخت سمیت زمین پر پٹخ دیا ” صبح ہوتے ہی اکبر اعظم نے شہر کے بڑے بڑے عالموں اور نجو میوں کو اپنے شاہی دربار میں بلوایا اور اپنا خواب بیان کیا اس پر ایک عالم نے خوف کے حصار میں قید ہو کر دست بستہ عرض کی کہ ”کوئی ایسا بچہ پیدا ہو گیا ہے جو آپ کے خود ساختہ آئین کو زمین بوس کر دے گا ”آپ رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش کے چند دن بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد محترم شیخ عبد الاحد رحمتہ اللہ علیہ آپ کو معروف روحانی بزرگ حضرت شاہ کمال کیتھلی کی با برکت خدمت میں لے گئے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے بچے کو پہلی ہی نظر میں دیکھتے ہوئے فرمایا ”عبد الاحد رحمتہ اللہ علیہ تیرے گھر میں عالم باعمل اورعارف کامل پیدا ہوا ہے اس کے رو حانی فیض سے گمراہیوں ، بد اعمالیوں اور معاشرے میں پھیلی ہوئی فسق و فجور کی تاریکیوں کا خاتمہ ہو گا ”شہنشاہ مغل اعظم جلال الدین اکبر نے اپنے خود ساختہ ”دین الہی ”کی بنیاد پر لو گوں کو گمراہ کر نے کے لیے مختلف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیے تھے۔
Taj Mahal Akbar E Azam
اکبر اعظم کے خوشامدی اور ہر لحظہ جی حضوری کرنے والے در باریوں نے اس کو دیوتا کا روپ دے رکھا تھا ایسے خوشامدی قسم کے لوگوں کے بارے میں شیخ سرہند امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی نے بجا طور پر لکھا ہے کہ ”علماء سو اور مشائخ نے شیطان کو کھلی چھٹی دے کر خود اس کا کام سنبھال لیا ہے ”ایک اور جگہ اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ ”انہی علماء میں سے بعض نے حرص کی بد بختی میں مبتلا ہو کر باد شاہوں اور امیروں کا تقرب حاصل کیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے خوشامد و چاپلوسی کے طریقے اختیار کیے ”سچ پو چھیے تو ابو الفضل اور فیضی جیسے علماء سو کا پیدا کردہ فتنہ تھا جس نے با لآخر ”دینِ الہی ” کو جنم دیا ،عہد اکبری کی چند جھلکیاں جو یقیناََ دین اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کے مترادف تھیں ملاحظہ کیجئے !”ابو الفضل اور فیضی بلکہ ان کے باپ ملا مبارک کی وجہ سے دین اور پھر نبوت پر اعتراضات شروع ہو چکے تھے اور بے دین مصنفین نے اپنی تصانیف سے نعت خارج کر دی تھی انہی دنوں میں ابو الفضل نے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی مو جودگی میں حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کو نا معقول کہا تھا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ بے تاب ہو گئے تھے
نماز ،روزہ اور شعائر اسلام کو ”تقلیدات” یعنی عقل کے خلاف سمجھا گیا حتیٰ کہ ابو الفضل کی زیر نگرانی اکبر اعظم نے محل کے اندر عبادت کے لیے ایک آتش خانہ تیار کرایا جہاں پر نصاریٰ کی طرح ناقوس ،صور ،تثلیث اور ان کی تعریفیں اکبر کا وظیفہ تھیں ،بر ہما ،مہاریو ، بشن ،کشن مہائی وغیرہ کی تعظیم کی جانے لگی سورج کی عبادت دن میں چار مرتبہ کی جاتی ، سورج کے ایک ہزار ایک نام کی مالا جپی جاتی ،قشقہ لگایا جاتا ، آگ ، پانی ، درخت اور تمام مظاہر فطرت حتیٰ کہ گائے اور اس کے گوبر کی اکبر بادشاہ خود پوجا کرتا تھا خنزیر کو اس نے (معاذ اللہ ) خدا کے حلول کا مظہر جانا ، گائے کا گوشت حرام اور خنزیر اور شیر کا گوشت مباح قرار دیا گیا ، سود شراب اور جُوا حلال سمجھا گیا اس دین میں شامل ہونے والوں کا کلمہ لا الہ الا اللہ اکبر خلیفتہ اللہ تھا،عربی پڑھنا عیب سمجھاجانے لگا ،قرآن کو مخلوق ،وحی کو محال ، معراج اور شق القمر کو غلط کہا گیا ، مغل حکمرانوں نے اپنی ہندو رعایا کو خوش کرنے کے لیے اسلامی تعلیم و تر بیت اور تبلیغ دین سے بے رخی تو اختیار کر ہی لی تھی۔
لیکن اب وہ عملی طور پر بھی ایسی خرافات کی ترویج بھی کرنے لگے تھے جو ملو کیت و شہنشاہیت کے مکارانہ حیلوں اور انسانیت سوز رویوں کے مترادف تھیں یہ طریقہ اسلامی تعلیمات سے اغراض ہی نہیں کھلی بغاوت کے مترادف تھا جس کی واضع مثال بادشاہ وقت کے لیے سجدہ تعظیمی کی رسم ِ بد کی ایجاد ہے اس موقع پرامام ربانی ،قندیل نورانی، حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ عزم و ہمت اور جرات و استقامت کے ساتھ اس رسم ِ بد کو روکنے کے لیے آگے بڑھے اورپہاڑ کی طرح ڈٹ گئے ،رفتہ رفتہ امام مجدد رضی اللہ عنہ کی تعلیمات کا اثر مسلمانوں میں احیائے دین کی صورت میں نمو دار ہوا اور اکبر کا ”دین الہی” خود اپنی موت آپ مر گیا اکبر کی وفات کے بعد بھی بے دینی کی کیفیت کچھ عرصے تک چلتی رہی اس لیے کہ آغاز میں شہنشاہ جہانگیر بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتا رہا مگر اس کے ساتھ ہی امام ربانی ،قندیل نورانی حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی تبلیغی سرگرمیاں بھی با قاعدہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر گئی تھیں اور بہت سے وزراء اور امراء آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے تھے ایسی صورت میں نور جہاںاور آصف جاہ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالی عنھہ کو شہنشاہ جہانگیر نے در بار میں بلایا اور در باری رسوم کے مطا بق باد شاہ کو سجدہ کرنے کو کہا گیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نے بر ملا انکار فر ما دیا اور کہا کہ ”سوائے ربِ ذوالجلال کے سجدہ کسی کو بھی جائز نہیں ” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی اسی سوچ اور فکر کی ترجمانی ڈاکٹر علامہ اقبال نے کچھ یوں کی ہے گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے جس کے نفس ِ گرم سے ہے گرمی احرار وہ ہند میں سر مایہ ملت کا نگہبان اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبر دار حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کا اس طرح ملوکیت کے سامنے ڈٹ جانا اگرچہ عظیم الشان اور سنہری کارنامہ تو ہے ہی سہی مگر دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو یہ بات بھی بڑی کٹھن اور مشکل ترین ہے کہ وقت کے جابر اور ظالم حکمرانوں کو غلط کاموں سے رو کا جائے در اصل ایسا جرات مندانہ کام اسی شخصیت کے حصے میں آتا ہے جس کے روشن سینے میں عزیمت و استقامت کا غیر متز لزل دل ہو ،جسے وقت کے حکمرانوں کا بڑے سے بڑا زلزلہ اور قہر بھی ان کے ارادوں میں ڈگمگاہٹ پیدا نہ کر سکے۔
Flood
ملوکیت کے پیکر میں ڈھلے حکمرانوں کو ان کے ایوانوں سے جاری کی گئی رسومِ بد سے روکنا اور بڑھتے ہوئے غلاظت و گندگی کے سیلاب کا رخ موڑنے کے لیے ایسے مردانِ حُر ہی آگے بڑھ کر پاکیزگی و طہارت کا بند باندھتے ہیں جن کی اسلامی تاریخ میں کبھی بھی کمی نہیں رہی اور ایسے مردانِ حُر معاشرے کے ماتھے کا جھو مر تصور کیے جاتے ہیں ،بادشاہ وقت سے ٹکر لینا بھی کوئی آسان کام تو نہیں ہے چنانچہ ایسے نازک ترین دور میں اسلام کا جو بطل جلیل بادشاہ کے مقابل آیا وہ خانوادہ نقشبند کا وہی خِرقہ پوش اور بُو ریہ نشین فقیر تھا جسے آج ساری دنیا حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کے نام سے جانتی ہے اسلام کے اس عظیم فرزند نے اپنی بے پناہ روحانی قوت اور بے مثال عزم سے اکبر کے ”دین الہی” کے پر خچے اُڑا کے رکھ دیے ،آپ کے پانچ سو مکتوبات گرامی جن میں توحید و رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حقیقت اور شریعت و طریقت کی اہمیت اور افادیت پرروشنی ڈالی گئی ہے ان مکتوبات میںامام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نے اکبر کی غلط روش کی وجہ سے پیدا ہونے والی افسوس ناک اور مایوس کن صورتحال کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے مثال کے طور پر وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ”کفر والے صرف اس پر راضی نہیں ہیں کہ اسلامی حکومت میں ان کے ضوابط کفریہ کھلم کھلا نافذ ہو جائیں ، بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی قوانین و احکام سرے سے مٹادیے جائیں اور انہیں اس حد تک ناپید کر دیا جائے کہ اسلام اور مسلمانوں کا کو ئی نشان باقی نہ رہے ”۔
جہاں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نے قوم کو ”حاکمانِ وقت ” کی رسومِ بد سے آگاہ کیا وہاں پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نے علماء کو بھی اس حقیقت سے آشکار کیا کہ ”دنیاوی منصب و پروٹوکول اور سیم و زر کی چاہت سے علم و علماء کی رسوائی ہوتی ہے ”کیونکہ پیغمبر انسانیت ، رسولِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ار شاد فرمایا کہ ”دنیا تو ایک مردار ہے اور اس کا طالب کتا ہوتا ہے ” اس ارشادِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں علماء کو یہ احساس دلانا تھا کہ وہ حرص اور لالچ کی طلب سے اپنی نورِ علم کی سفید چادر کوداغدار نہ ہونے دیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ ہی نے دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی جس کی دعوت پر برِ صغیر کا مسلمان متحرک ،خوابِ غفلت سے بیدار اور بر سرِ پیکار ہوایہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی متبرک تحریک ہی کے اثرات تھے جو 1857ء میں جنگ آزادی 1930ء میں مطالبہ پاکستان اور 1947ء میں مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں نمودار ہوئے اور نہ صرف مسلما نانِ ہند کو ایک با وقار قوم کی حیثیت دے گئے بلکہ خود حضرت مجدد الف ثانیرضی اللہ تعالیٰ عنھہ کے لیے بھی حیاتِ جا ودانی کا سبب بن گئے ،حضرت امام ربانی ،شیر یزدانی ،واقف ِ رموز ِ آیاتِ قرآنی ، قندیلِ نورانی ،محبوب ِ حقانی ،دو قومی نظریہ کے بانی حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی فاروقی ما تریدی رضی اللہ عنہ نے اپنے حجرے سے نکل کر رسمِ شبیری کاجو فریضہ سر انجام دیا وہ یقیناََ تا ریخ کا ایک روشن باب ہے اور یہ خاصہ مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ ہی کا ہے اور یہ سعادت ربِ قدیر اور آپ کے محبوب سراجِ منیر صلی اللہ تعالیٰ عنھہ کے انتخاب سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھہہی کے حصے میں آئی تھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نے جو دو قومی نظریہ کی تحریک شروع فر مائی تھی اس کی آبیاری آپ کے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے اکابرین نے جاری رکھی۔
بانی چورہ شریف نور العرفاء خواجہ سید نور محمد گیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور سلطان الفقراء خواجہ سید فقیر محمد گیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور آپ کے دستر خوانِ رو حانیت کے تربیت یافتہ اکابرین کی کثیر تعداد جن میں امیر ملت سید جماعت علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ علی پوری ،پیر جماعت علی شاہ ثانی رحمتہ اللہ علیہ ، حا فظ عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ آف عید گاہ شریف جیسے اہل بصیرت نے تحریک پا کستان میں مر کزی کر دار ادا کرتے ہو ئے قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر پا کستان کو معرضِ وجود میں لایا ، آج اس مملکت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے جہاں مذہبی تفرقہ بازی اور مسلمانوں کے در میان اختلاف کی خلیج وسیع کرنے کے لیے غیر مسلم طاقتیں اپنے باطل کا جال پھیلا رہی ہیں وہاں پر مسلمانوں کی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی سوچ کو با قاعدہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت فحاشی و عریانی کی طرف دھکیلا بھی جا رہا ہے۔
ایسے منتشر ماحول اور پراگندہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالٰٰ عنھہ کے افکار و نظریات کی روشنی میں ایک منظم تحریک بپا کی جائے تاکہ دیارِ اغیارسے بر آمدہ کلچر کو دیس نکالا دیا جا سکے اور نوجوان نسل کو مغربی ثقافت سے بچا کر سیرت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں ڈھالا جائے اور قوم کی مائوں کی گو دکو سیرت فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کا گہوارہ بنایا جائے تاکہ اس کی گود سے حسینی افکار کے محافظ ، حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی پاکیزہ سوچ کے وارث اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کی گفتار و کردار کے پہریدار جنم لے سکیں۔