انسان اپنی وکالت بڑے اچھے انداز میں کرتا ہے۔ جیسا کہ میں اکثر یہ بات سوچتا رہتا ہوں کہ اس دور میں شریف آدمی کاجینا بھی کیا جینا ہے۔زندگی کے ہر پہلو سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں بہت بڑا مجرم ہوں ،جبکہ کبھی کوئی جرم نہیں کیا ،آج تک نہ تودنیا کے کسی پولیس اسٹیشن میں میرے خلاف کوئی رپورٹ درج ہوئی اور نہ ہی میں نے کسی کے خلاف رپورٹ درج کرائی ہے ۔پھر بھی ہر جگہ میرے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔سوچتا ہوں کیسا وقت آگیا ہے ، اپنے ہی شہر میں گومتے ہوئے ایک ہی دن میں کئی کئی مرتبہ پولیس ناکوں پر تلاشی دینی پڑتی ہے ،پولیس تو خیر ایسا شہر اور شہریوں کو دہشتگردوں سے بچانے کی غرض سے ایساکرتی ہے ،لیکن ایک شریف آدمی کو ہر جگہ ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
کسی بیکری سے کوئی چیز خریدنی ہوتو تلاشی دینی پڑتی ہے ،بینک میں داخل ہونا ہو،کسی بڑے ہوٹل میں داخل ہونا ہو،عدالت میں داخل ہونا ہو،کسی سرکاری محکمے کے دفتر میں داخل ہونا ہو،مختصر کہ مسلمان کو مسجد اور درگاہ میں داخل ہونے کے لیے بھی تلاشی دینی پڑتی ہے ۔خود پر حیران ہوں کہ ان حالات میں بھی خود کو شریف آدمی سمجھتا ہوں جب کہ مسجد اور درگاہ تک میں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہوں ،بیکری والے بھی مجھے چور سمجھتے ہیں ،اپنے ہی ملک میں دہشتگرد سمجھا جاتا ہوں ،بجلی چوری کوئی اور کرتا ہے لیکن بل میں ادا کرتا ہوں ،اس چور کی شکایت کروں تو اس کی بجائے میرا ہی میٹر کاٹ دیا جاتا ہے پھر سوچتا ہوں میں شریف آدمی ہوں کہ مجرم ،اپنا گھر لٹنے کی رپورٹ درج کروانے کے لیے پولیس کو رشوت دینا پڑتی ہے پہلے ڈاکو لوٹتے ہیں پھر اپنے محافظ ۔اول تو چور ڈاکو پکڑے نہیں جاتے اوراگر ڈاکووں سے لوٹا ہوا سامان برآمد ہوبھی جائے تومجھے ملنے کی بجائے پولیس اہلکار آپس میں بانٹ لیتے ہیں ۔
مقدمہ اتنا کمزور درج کیا جاتا ہے کہ عدالت ڈاکووں کوباعزت بری کردیتی ہے،آجا کہ میرے ہاتھ کیا آتا ہے،دھکے ،ذلالت اور خوف ،خوار ہونے کے بعد سوچتا ہوں جرم کسی کو لوٹنا ہے یا خود لٹنا؟حالات و واقعات سے تو یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ جس کا گھر لٹ جائے وہی سب سے بڑا مجرم ہے ۔کتنا احمق ہوں سب سے بڑا مجرم ہوکر بھی خود کو شریف آدمی سمجھتا ہوں ۔سیاست دان مجھ سے ووٹ مانگنے آتے تو میں ان کی بڑی عزت کرتا ہوں ،ووٹ قوم کی امانت سمجھ کر بے لوث ہوکر سب سے بہتر اُمیدوار کو ڈالتا ہوں ،لیکن الیکشن جیتنے والا مجھے بھی بکاؤ مال کہتا ہے ،جبکہ میں نے کبھی بھی اپنے ووت اور ضمیر کا سودا نہیں کیا ، پھر سوچتا ہوں کہ میرے ہی منتخب کیے ہوئے نمائیدے نے کیوں مجھے بکاؤمال سمجھا ،بہت سوچنے کے بعد ایک بار پھر اپنے آپ کو احمق پاتا ہوں۔
اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں نے ووٹ کی قیمت نہیں لی جیتنے والے سیاست دان نے تو الیکشن جیتنے کے لیے کرڑوںروپے خرچ کردیے تھے،اسے کیا یاد کہ کس نے ووٹ کی قیمت لی اورکس نے بغیر قیمت کے ووٹ دیا،پھر جب اکثریت بکتی ہوتو اقلیت کو کون جانے۔یہ سب باتیں انسان اپنی وکالت کرتے ہوئے سوچتا ہے ،ان باتوں میں بھی حقیقت ہے لیکن ساری نہیں ۔کچھ ایسے پہلو بھی ہیں جن کو سوچوں تو میں مجرم ہوں ۔جیسا کہ ہر روزمیری آنکھوں کے سامنے میرے ملک کے قانون کو پاؤں تلے روندا جاتا ہے لیکن میں خاموش رہتا ہوں ،میرے سامنے میرے ہی ہم وطنوں کو دن دیہاڑے قتل کردیا جاتا ہے، تڑپتے ہوئے انسانوں کی مدد کرنے کی بجائے میں اپنے گھرکا راستہ لیتا ہوں ،قاتلوں کو پہچاننے کے باوجود گواہی نہیں دیتا،کیا سب یہ جرم نہیں ہیں ۔اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے سارا دن حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر دولت کے پیچھے بھاگتا ہوں ،کم تولتا ہوں،ملاوٹ کرتا ہوں ، حد سے زیادہ ناجائز منافع کماتا ہوں ، نجانے کتنے لوگوں سے دھوکا کرتا ہوں ، میرے جرموں کی لسٹ اتنی لمبی ہے کہ بیان کرنا ممکن نہیں پھر بھی خود کو شریف آدمی کہتا ہوں۔ ساری زندگی اپنے آپ کو شریف کہتا رہا لیکن آج میں قبول کرتاہوں ہاں میں مجرم ہوں۔