ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ماضی سے پاکستان اور خاص طور پر سندھ کا کون سا شہری ہے جو واقف نہیں۔یہ شخص ڈاکٹر کے نام پر بڑا بلیک سپاٹ ہے،کیونکہ ڈاکٹر تو انسانیت کا خدمت گذار ہوتا ہے۔ وہ رنگ و نسل کے جھگڑوں سے کوسوں دور ہوتا ہے۔مگر اس شخص نے ہمیشہ نفرت کی فصل کاشت کی ہے اور دہشت گردی کا بازار گرم رکھا ہے۔جس نے اپنے باپ کی عزت کو بھی بٹا لگایا اور خاندان کی عزت کی بھی پراہ نہ کی…..!!! ان کے قریبی لوگ اس بات سے اچھی طرح سے آشنا ہیں۔یہ شخص 1985 کے بعد سے ہی سندھ میں بسنے والے مہاجروں کا جی بھر کے قتلِ عام کراتا رہاتھا اور خود بھی ان جرائم میں برابر کا ملوث رہا ہے۔سب سے زیادہ سندھی مہاجر نفرت اس جئے سندھ کے ماضی کے سپوت نے پیدا کی۔یہ شخص سندھ اور سندھ میں بسنے والے لوگوں کا سکون برداشت کر ہی نہیں سکتا ہے۔ تعصب لگتا ہے اس کی گھٹُی میں شامل رہی ہے۔
سچ سچے کی زبان سے بہت اچھا لگتا ہے۔جھوٹے اور بے ایمان کی زبان سے زہر محسوس ہوتا ہے۔گو کہ وہ سچ ہی اُگل رہا ہو۔ ایم کیو ایم کا میں بہت بڑا حامی نہیں ہوں مگرجوانتہائی گھٹیا انداز ذوالفقار مرزانے اپنایا ہوا ہے وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ جس کی پذیرائی اُس جیسے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔جس وقت ذولفقار مرزا لندن روانہ ہوے تو انہیں باقاعدہ پروٹو کول کے ذریعے کلاشن کوف برداروں کے جھر مٹ میں ایئر پورٹ پر لایا گیا جبکہ کراچی میں مسلح دستوں کے ہمراہ چلنے کی سختی سے ممانعت ہے،اور پھر سرکاری انداز میں اس کو ہوئی جہاز تک پہنچایا گیا وہ منظر میڈیا نے پورے پاکستان کو دکھایا۔جس میں پیپلز پار ٹی کے ایک اہم رہنما شرجیل میمن اور ایک ایم پی اے سندھ اسمبلی امداد پتانی ان کے دائیں بائیں چل رہے تھے۔ذوالفقار مرزا کا کہنا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے خلاف ایک بڑا مشن لیکر برطانیہ جا رہے ہیں۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ انہیں سرکاری پروٹوکول میں رخصت کیا گیا تھا۔ چاہے کوئی صدر زرداری کے بارے میں کتنا ہی سوفٹ کا رنر اور گمان رکھ لے یہ حقیقت ہے وہ مرزا کے ذریعے اور اپنی حیثیت کی وجہ سے ایم کیو ایم سے ڈبل گیم کھیل رہے ہیں۔جس کا ایم کیو ایم اور اس کی قیادت کو ادراک نہیں ہے۔ایم کیو ایم کو بلیک میل کر کے وہ اپنے اقتدار کی مدت طویل کرنے اور مستقبل کے صدارتی منصب کے خواب دیکھ رہے ہیں جس میں شائد ایم کیو ایم کے لوگ ایک بار پھر ٹر یپ ہو کرغلطی سرزد کر بیٹھیں …!اورپیپلز پارٹی پھرجب دوبارہ اقتدار میں آئے گی تو اپنے ماضی کے کھیل میں دوبارہ مصروف ہوجائے گی۔دوبارہپ اقتدار میں آنے کے بعد اب دیکھئے ان خلاف کیا گل کھلائے گی۔اس کا احساس ایم کیو ایم کے اندر کسی کو بھی نہیں ہے۔ابھی ایم کیو ایم کے لوگ سیاست کے کھلاڑی تو ہیں مگر بہت کچے ہیں۔ سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا نے شرجیل میمن کی موجودگی میں لندن میں میڈیا سے اظہار خیال کرتے ہوے کہا کہ میں گذشتہ 30سالوں سے (جب وہ جئے سندھ کے پلیٹ فارم سے نون سندھی اسپیکنگ لوگوں کا قتلِ عام کر رہے تھے)عذاب سے دوچار پاکستانی قوم کو دہشت گردوں کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ لندن آیا ہوں،پاکستان کو ملک میں ظالمانہ کاروائیاںکرنے سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کیا مرزا اپنے مظالم کی داستان بھی اپنے آقاو ں کو سنانا چاہیں گے؟؟؟اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ مرزا کے کراچی سے نکلتے ہی اَن جانے خوف کی وجہ سے ایم کیو ایم کی صفوں کھلبلی مچ گئی اورایم کیو ایم کے قائد سمیت پاکستان میں بھی ایم کیو ایم کے تمام لوگ حرکت میں آگئے تھے۔ویسے میڈیا کے لوگوں کی اکثریت کابھی یہ ماننا ہے کہ اگر ڈاکٹر عمران قتل کیس میں ایم کیو ایم کا ہاتھ نہیں ہے اوربرطانوی وزیر اعظم لکھے گئے مبینہ خط اور اس میں آئی ایس آئی کے خلاف پابندی لگانے کا الزام غلط ہے تومرزا کی حرکتوں پر اتنا پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ ذوالفقار مرزاکی موومنٹ پر الطاف حسین نے لندن سے صدرزرداری کو فون گھمایا اور مرزا کی حرکتوں پر اپنے تاسف کا اظہار بھی کیا۔ اس سلسلے میںایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کا کہنا ہے کہ ذوالفقار مرزا کی طرف مجھ پر لگائے جانے والے تمام الزامات سرا سر جھوٹ ہیں۔ہم نے برطانوی وزیر اعظم کو کوئی خط نہیں لکھا…..ایم کیو ایم افواج پاکستان اور اس کے اداروں پر فخر کرتی ہے۔ہم امریکہ یا ویسٹ کے ساتھ مل کر پاکستان کو توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں….. ایم کیو ایم میں ہر جانب سے ذوالفقار مرزا کے بیانات پر شدید تشویش اور تنقید کا بھی شدت کے ساتھ اظہار کیا گیا۔اس ضمن میں ایم کیو ایم کا ایک وفداسلام آباد میںوزیر اعظم گیلانی اور ایک وفد سندھ کے وزیر اعلیٰ سے ملا ۔ان وفود نے پی پی پی کے ان رہنماوئںسے اپنی وفادایوں کا صلہ اس انداز میں ملنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ایم کیو ایم کے تحفظات پر صدر زرداری اور قائم علی شاہ نے کہا کہ ذوالفقار مرزا کی حرکتوں سے پی پی پی کا کوئی تعلق نہیں ہے !!!تاہم دوسری جانب مرز کا کہنا ہے کہ درونِ خانہ انہیں صدر اور دیگر پی پی رہنماوئں کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں پی پی کے مفاد میں ہے۔جس کا ثبوت وزیر اعظم یوصف رضا گیلانی کا 16 اکتوبر2011کابیان ہے۔ جس میںوزیر اعظم گیلانی نے قومی اسمبلی کے فلور پربہت واضح الفاظ میںکہا تھا کہ ذوالفقار مرزا کے ساتھ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔وہ ہماری جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ،پارٹی کے اندر اختلافات ہوسکتے ہیں ۔ مگر یہ ایک خاندان کی طرح ہے اور پھراختلافات تو جمہوریت کا حسن ہیں۔ ذوالفقار مرزا سابق وزیر داخلہ سندھ بعض پیپلز پارٹی کے رہنماوئں سے ناراضگی کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں مگر صدر آصف علی زرداری کو اپنا لوٹ مار میں سب سے بڑا محسن گردانتے ہوے ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔اس وقت پاکستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی کے لئے آزمائش پر آزمائش چلی آرہی ہیں۔کبھی صدر کی منشاء کے عین مطابق امریکہ میں( امریکہ)پاکستان کے سفیر حسین حقانی کا لکھا ہوا خط آڑے آرہا ہے تو کبھی شاہ محمود قریشی کا استعفےٰ ان کی جا ن کو اٹک گیا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ذوالفقار مرزا کی ناراضی نے پیپلز پارٹی کو مزید مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔یہ تمام معاملات آئندہ پیپلز پارٹی کے انتخابات کے دوران سوالیہ نشان بن کر سامنے آئیں گے۔جو پیپلز پارٹی کے لئے مسلسل گھاٹے کا سودا ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں پیپلز پارٹی کی قیادت جتنی آج نون سینس ہے کبھی نہ تھی۔قیادت کا فقدان پیپلز پارٹی کو لے ڈوبے گا۔دوسری جانب ایم کیو ایم کا یہ سوال کہ پیپلز پارٹی بتائے کہ وہ مرزا کے ساتھ ہے یا ایم کیو ایم کے ساتھ؟ابھی تک تشنگی کا شکار ہے۔جس کا مکمل اور بھر پور جواب آنا ابھی باقی ہے۔ تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خور شیدshabbir4khurshid@gmail.com