یورپ کے ایک سماجی محقق ایچ اے ہیلر کے مطابق چند سال قبل یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کی بحث سیکورٹی کے مسائل سے شروع ہوئی تھی اور اس کا تناظر القاعدہ جیسے گروپوں کا طرز عمل تھا۔ یورپی باشندوں کو خوف تھا کہ انتہا پسند مسلم گروپوں کی پْرتشدد سرگرمیاں یورپ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ مگر اس بحث کا رْخ جلد ہی تبدیل ہو گیا اور اب خوف یہ ہے کہ مغربی تہذیب کو خود اسلامی تہذیب سے خطرہ ہے، یعنی اب القاعدہ سے خطرہ نہیں بلکہ اْن مسلمانوں سے خطرہ ہے جو مغربی ملکوں میں آباد ہیں اور اپنی مذہبی اقدار پر مصر اور عمل پیرا ہیں۔ پروفیسر ہیلر ، واروِک کی برطانوی یونیورسٹی میں نسلی تعلقات کے تحقیقی مرکز کے سربراہ ہیں۔ یورپ کے مسلمان کے نام سے انہوں نے کتاب بھی لکھی ہے۔ پروفیسر ہیلر کی اس رائے کاحوالہ برطانوی جرنلسٹ تھیونس بی ٹس نے اپنے ایک تازہ آرٹیکل (aolnews.com) میں دیا ہے۔ رائٹر نے مغرب کے کئی ملکوں، جرمنی، فرانس، نیدر لینڈ سوئٹزرلینڈ ، آسٹریا وغیرہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان ملکوں میں اسلامی پردے یا مسجد کے میناروں پر اعتراض محض علامتی ہے اصل پریشانی اسلامی ثقافت سے ہے۔ اہل مغرب کو تو سور اور شراب سے مسلمانوں کے اجتناب پر بھی اعتراض ہے۔
اِن خبروں کو پڑھ کر ایک خالی الذہن شخص سوال کرسکتا ہے کہ اگر مسلمان اپنے مذہبی اقدار پر عمل کرتے ہیں تو اس سے اہل مغرب کو بھلا کیا خطرہ ہو سکتا ہے اس کا جواب دینے یعنی سبب بتانے کے لئے مغربی مبصرین کو زبردست اخلاقی جرات کی ضرورت پیش آئے گی۔ جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کا صاف ستھرا عقیدہ ، ان کا سیدھا سادہ طریقے عبادت ، حرام چیزوں سے اجتناب اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں اسلامی اخلاق کامظاہرہ ایسی چیزیں ہیں جو مغرب میں ہر جگہ مقامی باشندوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں لوگ نہ صرف مسلمانوں سے قریب ہوتے ہیں بلکہ ایمان والوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ خواتین میںیہ چیز زیادہ دیکھی جاسکتی ہے۔
مگر چالاکی میڈیا کی ہے کہ وہ اِس صورت حال کو دنیا کے سامنے نہیں آنے دیتا، دبا دیتا ہے۔ اس کے برعکس مسلم شہریوں کے ساتھ بھید بھاؤ اور بدسلوکی کے اْن اِکا دکا واقعات کو بہت بڑے پیمانے پر اور کچھ اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ گویا واقعے صورتِ حال یہی ہو۔ کچھ باضمیر رپورٹر اور رائٹر ضرور ہیں جو کبھی کبھی اور کسی نہ کسی طرح حقائق لے آتے ہیں۔ یہ صورتحال مغرب کے ان حلقوں کے لئے یقینا خطرناک ہے جو شیطانی افکار کی سوداگری کرتے ہیں۔اِسی طرح اسرائیل سے یہ خبریں تو آتی رہتی ہیں کہ تل ابیب کی حکومت نے مسلمانوں کے حملوں سے بچنے کے لئے سرحدیں بند کردیں یا دیواریں کھینچ کر مسلم اور یہودی آبادیوں کو الگ الگ کردیا لیکن ان واقعات کی بھنک بھی نہیں لگنے دی جاتی کہ یہودی شہریوں کے ساتھ مسلمانوں کے حسن سلوک ، بیماروں کی تتمارداری، ان کی ضروریات کی تکمیل اور اسلام ویہودیت پر تبادلہ خیال کی وجہ سے بعض یہودی اپنے اصل دین یعنی اسلام کی طرف لوٹنے لگتے ہیں۔
سرحدوں کی بندش اور دیواروں کی تعمیر کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہودی باشندے مسلمانوں کے ربط میں نہ آنے پائیں۔ غرض یہ پروپیگنڈا کہ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت بڑھ رہی ہے محض پروپیگنڈا ہے جس کے پیچھے امریکہ اور یورپ کے اسلام دشمن صہیونی سرگرم ہیں۔ مگر اْن کی بدقسمتی سے ان کی اِس مہم کا اثر نہ صرف یہودیوں اور عیسائیوں پر بعض اوقات الٹا ہوتا ہے بلکہ بے عمل مسلمان بھی باعمل بننے لگتے ہیں۔ جیسا کہ تھیونس بیٹس نے اپنے اِسی آرٹیکل میں ایک اور مبصر ریئم اسپائل ہاس کے حوالے سے لکھا ہے ان کے اس رویہ کا نتیجہ یہ ہے کہ اب وہ مسلمان بھی جو شراب اور سور کا استعمال کرتے تھے یہ سب چھوڑ کر اپنی مسلم شناخت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔