یورپی یونین : (جیو ڈیسک)یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے شام کے صدر بشارالاسد کی اہلیہ اسما الاسد سمیت دیگر بارہ اہلِ خانہ پر پابندیاں عائد کردی ہیں جن کے تحت نہ صرف ان کے اثاثے منجمد کردیے گئے ہیں بلکہ ان کے یورپ آنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔یورپی اتحاد کے وزرائے خارجہ نے جن بارہ افراد پر یہ پابندیاں عائد کی ہیں ان میں صدر بشار الاسد کی والدہ اور بہن بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب برطانیہ کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کی اہلیہ اسما الاسد برطانیہ میں پیدا ہوئی تھیں اس لیے برطانوی شہریوں کو یورپی یونین کی پابندی کے باوجود برطانیہ میں داخل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔صدر بشارالاسد کی اہلیہ کے مغرب میں پروان چڑھنے کی وجہ سے مغرب میں یہ تاثر تھا کہ وہ شام میں اصلاحات کی وجہ بن سکتی ہیں۔
چھتیس سالہ شامی نژاد اسما الاسد نے زندگی کا بیشتر حصہ مغربی لندن میں گزارا ہے اور برطانیہ کی بارڈر ایجنسی نے ان کے برطانوی شہری ہونے کی تصدیق کی ہے۔برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اسما الاسد جلد برطانیہ کا دورہ کریں گی۔ان کا کہنا تھا کہ برطانوی شہریوں اور برطانوی پاسپورٹ رکھنے والے افراد کو برطانیہ آنے کی اجازت ہے۔واضح رہے کہ سنہ دو ہزار میں بشار الاسدسے شادی سے پہلے اسما لندن میں انویسٹمینٹ بینکر رہی ہیں اور بشار الاسد کی حکومت میں کبھی پیش پیش نہیں رہیں۔
فروری میں ایک برطانوی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں انہوں نے وضاحت کی تھی کہ وہ شام کی قیادت کے لیے اپنے شوہر کو کیوں موزوں سمجھتی ہیں۔گزشتہ ہفتے صدر بشار الاسد کے مخالفین نے اسما الاسدکی تین ہزار ای میلز شائی کی تھیں جن کے مطابق وہ صدر کے خلاف بغاوت کے باوجود بھی آن لائن شاپنگ کے ذریعے قیمتی اشیا خریدتی رہیں تاہم ان پیغامات کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔
دوسری جانب شام کے صدر بشارالاسد کے مخالفین نے حکومت پر گزشتہ سال کے دوران ہزاروں مظاہرین کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔شامی حکومت نے حالیہ ہفتوں میں باغیوں کو کچلنے کے لیے حمص اور حما سمیت پورے ملک میں کارروائی کی۔شام میں ہر روز درجنوں افراد مارے جا رہے ہیں تاہم اس کے باوجود ملک میں مظاہرے بھی جاری ہیں۔
شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے ایلچی کوفی عنان کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق کوفی عنان رواں ہفتے کے اختتام پر شام کے بحران پر مزاکرات کے لیے ماسکو اور بیجنگ کا دورے کریں گے۔واضح رہے کہ روس اور چین نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی شام سے متعلق دو قراردادوں کو ویٹو کر دیا تھا۔
شامی صدر نے ملک میں سیاسی اصلاحات کا وعدہ کیا تھا تاہم مبصرین اور ان کے مخالفین نے ان کے اقدامات کو محض ایک دکھاوا قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف گزشتہ برس مارچ سے شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک آٹھ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔دوسری جانب شام کے صدر بشارالاسد اور ان کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ دہشت گرد اور مسلح گروہ ملک میں جاری تشدد کے ذمہ دار ہیں۔