یہ میں ہوں!

hand reaching

hand reaching

میں جب نقل مکانی کر کے ایک نئے علاقے میں گیا تو وہاں رہنے والے یقیناً پہلے سے ایکدوسرے کو جانتے تھے لیکن مجھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ مجھے چونکہ وہاں ایک نئے سرے سے آغاز کرنا تھا اس لیے میری خواہش تھی کہ اس نئی جگہ پر مجھے بھی کوئی جاننے لگے۔ میں شروع شروع میں خوش نہیں تھا کیونکہ میری طرف کسی نے توجہ ہی نہیں دی تھی کہ میں بھی ہوں۔ میں نے چونکہ اپنے بچپن ہی میں سیکھ رکھا تھا کہ شروع کرنے کیلئے پہلے خود ہی آگے بڑھنا ہوتا ہے کیونکہ اگر ہر کوئی دوسروں سے آگے بڑھنے اور شروع کرنے کی توقع لگائے رکھے تو کبھی بھی کوئی چیز رونما ہو سکتی۔
اب میں نے ہر ایک کو ” ہیلو” کہنا شروع کر دیا بالکل ویسے ہی جیسے باقی لوگ ایکدوسرے کو ” ہیلو” کہتے تھے۔ مجھے یہ جان کا دکھ ہوا کہ کسی نے میرے ” ہیلو” کہنے کے جواب میں مجھے ” ہیلو ” نہیں کہا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ ہر ”آغاز ”شروع میں مشکل ہوتا ہے اس لیے میں جس راہ پر چل رہا تھا اس پر چلتا رہا۔

کبھی کبھار ایک بچہ مجھے دیکھ کر مسکرا دیتا تھا۔ وہاں ایک بوڑھے آدمی سے جب میری مڈھ بھیڑ ہوتی، وہ گردن جھکا دیتا۔ ایک اور بچہ ادھر ادھر مسکراتا رہتا تھا۔ شاید وہ اپنے ہی حال میں مست، سرمست ہو بہرحال اب میں نے وہاں سپر مارکیٹ میں ” کاؤنٹر ” پر بیٹھنے والی ” عورت سے کبھی کبھار باتیں کرنا شروع کر دی تھیں لیکن پھر وہ عورت بھی ایک مشین میں بدل گئی جو باتیں نہیں کرتی تھی۔ میں نے اپنے آپ سے باتیں کرنا بھی بند کیا ہوا تھا کیونکہ اب کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔

children

children

ایکدن میرے دروازے کی گھنٹی بجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اس دن کیبعد پھر کبھی آئندہ ایسا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دو بچے تھے، جنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میرے پاس پرانے اخبارات ہوں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواباً میں نے کہا کہ میرے پاس سوائے اخبارات کے اور کچھ ہے ہی نہیں لیکن جب میں اخبارات لانے کیلئے اندر گیا تو مجھے سیڑھیوں پر کسی کے اچھل کود کرتے ہوئے نیچے اترنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے اخبار واپس رکھ دیے اور باہر نکل کر دیکھا تو یہ وہی دونوں بچے تھے جو ابھی تھوڑی دیر پہلے میرے دروازے پر کھڑے پرانے اخبارات مانگ رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ وہ ضرور مجھ سے ڈر گئے ہونگے کیوں کہ آخر کار یہاں میں ابھی تک محض اجنبی ہی تو تھا۔
میں سمجھ چکا تھا کہ ایک اجنبی کا کسی دوسرے اجنبی کیلئے محض سر جھکا کر آداب بجا لانا ہی کافی نہیں لہٰذا مجھے اپنے آپکو ان لوگوں سے اپنا نام لے کر متعارف کرانا ہو گا اور ان سے بات چیت کے لیے راہ و رسم نکالنی ہو گی۔

old man

old man

چنانچہ پہلا آدمی جس سے میں نے بات کی وہ وہی بوڑھا تھا جو مجھے دیکھ کر ہمیشہ سر جھکایا کرتا تھا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی آج بھی ویسے ہی سر جھکایا اور جب میں نے اسے ” ہیلو” کہہ کر موسم کے حوالے سے بات شروع کی تو وہ کچھ کہے بغیر آگے چلتا گیا۔ اب مجھے کوئی شک نہیں رہا تھا کہ گردن جھکانا تو شاید محض اس کی عادت تھی لیکن وہ بہرہ ضرور تھا۔ وہ بچہ جو ہر وقت ادھر ادھر گھومتا پھرتا رہتا تھا جب میں نے اسے اپنا نام بتاتے ہوئے خود کو متعارف کرایا تو وہ بڑے احمقانہ انداز میں ہنسا اور پھر کچھ کہے بغیر ٹک ٹک مجھے گھورنے لگا۔ میرا خیال درست نکلا۔ وہ اپنے آپ میں ”حاضر” نہیں ” غائب” رہا کرتا تھا اور واقعی ہی مستی میں رہا کرتا تھا۔

میرے لیے یہ صورتحال بڑی رقت آمیز تھی کہ میں صرف ان ہی لوگوں سے بات کرنے کی جرات کر سکا جو دوسروں سے مختلف تھے اور ایکدن کا واقعہ تو مجھے ابھی تک یوں یاد ہے جیسے یہ آج ہی رونما ہوا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن میں نے دو لڑکوں سے بات کی تھی جو منہ بھر کر قہقہے لگا رہے تھے۔ میں نے اونچی آواز میں، تاکہ وہ سن لیں، ان سے پوچھا کہ وہ کس پر قہقہے لگ رہے ہیں؟ جواب دینے کی بجائے انہوں نے قہقہے لگانے بند کر دیے اور ایکدوسرے کو دیکھا میں اگرچہ بالکل انکے روبرو عین سامنے کھڑا تھا لیکن انہوں نے منہ موڑ لیا اور ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اگر اس نے سنا ہو کہ کوئی کچھ پوچھ رہا تھا شاید کہ ہم کس پر قہقہے لگا رہے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جو بھی تھا، جہنم میں جائے، دوسرے نے جواب دیا اور پھر وہ دونوں وہاں سے بھاگ گئے۔
ٍمیں یہ تو نہیں کہوں گا کہ اس دن مجھے اپنے آپ میں دوسروں کو ڈرا سکنے کی اس خاصیت کے اچانک ظہور پرفور خوشی کا احساس ہوا تھا کیونکہ میں نے ابھی تک اس خاصیت کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی، ہاں آہستہ آہستہ میں اسکا معترف ہونے لگا تھا اور وہ یوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے جس کسی سے بھی کبھی بات کرنا چاہی تو اس نے ڈری ڈری آنکھوں سے پہلے مجھے دیکھا اور پھر اس میں سے اکثر نے اپنے ساتھ والے ساتھی سے پوچھا کہ اگر اس نے سنا ہو کہ کوئی کچھ پوچھ رہا تھا۔ اب مجھے اپنے آپ میں اس نئی قوت کا احساس ہو گیا تھا کہ میں لوگوں کو ڈرا سکتا ہوں۔ مجھ پر خود میں اس مخفی قوت کا ظہور ہو جانے کے بعد اپنی خودی کا ایک نشہ سا طاری رہنے لگا لیکن میں نے اسے اپنے قابو میں رکھا۔ شروع شروع میں، میں نے کچھ احمقانہ حرکتیں اور بچوں جیسی ایسی باتیں کیں کہ اگر لوگوں کو انکے بارے میں یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ میں تھا جس نے وہ حرکتیں کی تھیں تو میں انکو تسلیم ہی نہ کرتا افسوس کرنا تو دور کی بات ہے۔

i am here

i am here

اب میں یہ بات یقین کی حد تک جانتا تھا کہ میں ناقابل مشاہدہ ہوں یعنی کہ دوسرے میری موجودگی کو دیکھ اور محسوس ہی نہیں کر سکتے تھے۔ میرے بچپن میںایسے بہت سے لوگ تھے جنہوں نے مجھے دیکھا اور میرے لڑکپن اور بعد میں جوانی میں بھی ایکدوسرے سے الگ ہوتے ہوئے ” خدا حافظ” کہتے ہوئے اکثروبیشتر یہی کہا کرتے تھے کہ ، پھر ملیں گے، لیکن اب تو ایک مدت ہوئی انکو کبھی مجھ پر نظر ہی نہ پڑی تھی۔ اب میں نے جب اس بارے میں سوچا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے تو ایک مدت سے کسی نے دراصل دیکھا ہی نہیں تھا۔ اپنے اس احساس پر اگرچہ پہلے پہل میں شاید اداس رہتا تھا لیکن اب میں خوش رہنے لگا تھا۔ مجھ سے ابھی تک یقیناً پہلے کبھی کوئی جرم سرزد نہیں ہوا تھا۔ میں جب بچہ تھا تو ممکن ہے کہ دوسرے بچوں کی طرح میں نے بھی سوچا ہو کہ کسی کو قتل کر دینا اور اخباروں میں فوٹو شائع کرانا اور اسطرح مشہور ہو جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا آسان کام ہے لیکن جب میں کچھ بڑا ہوا تو ایسا کرنے سے میری ہمت جواب دے گئی اور اب میں اپنی تصویر اخباروں میں شائع نہیں کرا سکتا۔ آپ بچپنے میں جو خواب دیکھتے ہیں وہ ، جوں کے توں، کبھی کبھار ہی پورے ہوتے ہوں تو ہوں اور مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اور وہ دوسرے لوگ یہ تک نہیں جانتے کہ یہ ” میں ہوں میں ”۔

( از وِلی سورنسن ترجمہ: نصر ملک)